09 جنوری ، 2018
ملتان کے بعد کراچی میں بھی موسمی انفلوئنزا H1N1 کے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے اور شہر کے ایک نجی اسپتال میں 28 مریضوں کے اس وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔
ڈائریکٹر ہیلتھ کراچی ڈاکٹر طاہر عزیز کے مطابق اسٹیڈیم روڈ پر واقعہ نجی اسپتال کی جانب سے 28 مریضوں کے موسمی انفلوئنزا سے متاثر ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ کئی افراد کو انفلوئنزا کی مشتبہ علامات کے ساتھ اسپتال لایا گیا ہے جن کے ٹیسٹ کئے جارہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چونکہ سرکاری سطح پر کوئی ایسی لیبارٹری موجود نہیں جو H1N1 وائرس کی تشخیص کرسکے لہٰذا ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کو ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ وہ انفلوئنزا کے مشتبہ کیسز کو تصدیق کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد بھیجیں۔
انہوں نے بتایا کہ مذکورہ اسپتال کے علاوہ کسی اور سرکاری یا نجی اسپتال نے ایچ ون این ون انفلوئنزا کے کیس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
طاہر عزیز نے کہا کہ کراچی میں انفلوئنزا کے کیسز سامنے آنے کے بعد تمام سرکاری اور نجی اسپتالوں کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے جبکہ انہوں نے شہریوں سے کہا ہے کہ اگر انہیں فلو کی علامات محسوس ہوں تو احتیاطی تدابیر اختیار کریں جبکہ عام لوگ بھی فلو سے متاثرہ شخص سے خود کو دور رکھیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مارکیٹ میں اب ایسے ماسک دستیاب ہیں جن کی مدد سے وائرس کو چھینک یا کھانسی وغیرہ کے ذریعے دوسرے شخص میں منتقل ہونے سے روکا جاسکتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کو چاہیے کہ وہ ہر تھوڑی دیر بعد معیاری صابن سے ہاتھ دھوئے تاکہ وائرس خاندان کے دوسرے افراد میں منتقل نہ ہوسکے۔
پنجاب میں موسمی انفلوئنزا 17 افراد کی جان لے چکا
جنوبی پنجاب میں موسمی انفلوئنزا اب تک 17 افراد کی جان لے چکا ہے، انتقال کرنے والوں میں 12 کا تعلق ملتان سے، 3 کا مظفر گڑھ جبکہ 2 کا تعلق وہاڑی اور راجن پور سے ہے۔
سیزنل انفلوئنزا سے ہونے والی اموات میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے جن میں 2 حاملہ خواتین بھی شامل ہیں جبکہ 7 مرد بھی اسی مرض کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ سیزنل انفلوئنزا سے بچنے کے لئے ہر سال ماہ اکتوبر میں ویکسینشن کروانی چاہیے کیونکہ یہ ویکسین 15 روز بعد اپنا اثر دکھانا شروع کرتی ہے ۔
ڈاکٹرز کے مطابق وسط دسمبر سے انفلوئنزا کا سیزن شروع ہوتا ہے اور وسط جنوری تک جاری رہتا ہے البتہ اگر بارش ہو جائے تو یہ وائرس مر جاتا ہے۔
پنجاب میں سیزنل انفلوائنزا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے 4 ڈاکٹرز بھی اسی مرض سے متاثر ہو کر اسپتال کے علیحدہ وارڈز میں زیر علاج ہیں۔
اب تک موسمی انفلوائنزا کی علامات والے 114 مریض نشتر اسپتال لائے جاچکے ہیں جن میں سے 54 مریضوں میں موسمی انفلوئنزا کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 6 متاثرہ افراد کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
معروف مائیکرو بائیولاجسٹ ڈاکٹر شاہانہ عروج کاظمی نے کراچی میں ایچ ون این ون وائرس کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ صحت کو وائرس پھیلنے سے قبل اقدامات کرنے ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ’’ایچ ون این ون انفلوئنزا بہت تیزی سے پھیلتا ہے، یہ سانس کے ذریعے منتقل ہونے والا وائرس ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ متاثرہ شخص کی کھانسی، چھینک یا ناک سے بہنے والے نزلے میں موجود وائرس سے دوسرا شخص متاثر ہوسکتا ہے، اس وائرس سے متاثرہ شخص شدید بیمار ہوجاتا ہے اور خاص طور پر ان افراد کے لیے یہ وائرس خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہو‘‘۔
ڈاکٹر شاہانہ نے بتایا کہ ’’ایچ ون این ون وائرس سے ہونے والے اموات کی شرح 10 سے 20 فیصد کے درمیان ہے، یعنی یہ کافی خطرناک وائرس ہے۔ اس وائرس کے شکار مریض میں عام طور پر کھانسی، بخار، گلے میں درد اور نزلے کی شکایت ہوتی ہے البتہ اگر یہ وائرس شدت اختیار کرجائے تو نمونیہ، پھیپھڑوں میں انفیکشن، سانس لینے میں تکلیف اور سانس رک جانے کی وجہ سے مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے‘‘۔
جب ان سے علاج کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’دنیا میں ایچ ون این ون وائرس سے بچاؤ کی ویکسین دستیاب ہے لیکن بہت مہنگی ہے اور فی الحال یہ ویکسین پاکستان میں دستیاب نہیں ہے‘۔