Time 17 جنوری ، 2018
بلاگ

بینکوں کی کرکٹ ٹیمیں بند نہیں ہونا چاہئیں

— فوٹو:فائل

پاکستان فرسٹ کلاس کرکٹ کی تاریخ 65 سال کے عرصے پر محیط ہے، افسوس ملک کے سب سے بڑے فرسٹ کلاس کرکٹ ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کو ہر سیزن میں نئے فارمیٹ کے عذاب سے گذرنا پڑتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ ٹورنامنٹ ملک میں کرکٹ کے ڈھا نچے کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

درست کہ اس وقت ہر کسی کی زبان پر’پاکستان سپر لیگ‘ کا ہی تذکرہ ہے لیکن سب جا نتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ پیسے کی چمک اور براہ راست ٹی وی پر میچوں کا آنا ہے جب کہ قائد اعظم ٹرافی کے ساتھ نا انصافی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہر سیزن میں فرسٹ کلاس کرکٹ پر کروڑوں روپے تو خرچ کرتا ہے، البتہ اس ٹورنامنٹ کو اس کے معیار کے مطابق اہمیت دینے میں شرم محسوس کی جاتی ہے۔

ایسا لکھا جائے تو غلط نہ ہوگا، یہ تمام بحث اپنی جگہ دوسری جانب ابھی تک پاکستان فرسٹ کلاس کرکٹ میں یہ بحث ہی ختم نہیں ہو سکی ہے کہ محکموں کی ٹیمیں ہونا چاہیئیں یا نہیں؟ میں تو اس کا مکمل طور پر حامی ہوں، سچ تو یہ ہے کہ مختلف محکموں اور بینکوں کی ٹیمیں اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کرکٹ کے کھلاڑیوں کے گھروں کا چولہا ٹھنڈا نہیں ہو نے دیتیں، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

20سال پہلے یو بی ایل نے گولڈن ہیڈ شیک دے کر کئی کرکٹرز کو جبری ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا جس سے ٹیم کی کارکردگی کا گراف نیچے گیا، البتہ کچھ سال پہلے پی سی بی گورننگ بورڈ کے رکن منصور مسعود خان کی ذاتی دل چسپی کیساتھ ایک بار پھر بینک کی ٹیم کو بنانے میں دل چسپی کا مظاہرہ کیا گیا ،بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا ٹیسٹ بیٹس مین یونس خان بھی حبیب بینک سے اپنی طویل رفاقت کا خا تمہ کر کے یو بی ایل سے منسلک ہوگیا۔

ایک دن قبل اسی سابق ٹیسٹ کپتان کی قیادت میں بینک کی ٹیم نے قومی ون ڈے ٹورنامنٹ کا فائنل جیت لیا، دوسری طرف پاکستان سپر لیگ کا اسپانسر حبیب بینک سابق فرسٹ کلاس کرکٹر عبدالرقیب کے جانے کے بعد نئے کھلاڑیوں کے ساتھ تجربات کے مرحلے سے گذر رہا ہے۔

 کچھ یہی معاملہ فرسٹ کلاس کرکٹ گراؤنڈ رکھنے والے نیشل بینک کے ساتھ بھی ہے، جو بنگلور کے ہیرو اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں 999 وکٹیں لینے والے اقبال قاسم کے جانے کے بعد ڈوب کر ابھر نے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اس سلسلے میں بینک کے سربراہ سعید احمد جو خود کرکٹ میں خاص دل چسپی رکھتے ہیں، انہوں نے سات مرتبہ نیشنل بینک کو قائد اعظم ٹرافی کا فاتح بنانے والے اقبال قاسم کی خدمات حاصل کر نے میں دل چسپی ظاہر کی ہے، اگر ایسا ہوا تو یقیناً یہ نیشنل بینک کرکٹ ٹیم کی گرتی ساکھ کو بحال کرنے میں ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔

 ادھر اسٹیٹ بینک کی ٹیم اگرچہ گریڈ’ٹو‘ کرکٹ کھیل رہی ہے لیکن فرسٹ کلاس گراؤنڈ کے ساتھ اس ادارے کے لیے ظہیر الحسن کی کوششوں سے سب بخوبی آگاہ ہیں ۔

زرعی ترقیاتی بینک مردوں کیساتھ خواتین کی کرکٹ ٹیم چلا کر بجا طور پر پاکستان کرکٹ کے لئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے، غرض آسان لفظوں میں یہ لکھنا مناسب ہوگا کہ محکموں اور بینکوں کی ٹیمیں پاکستان فرسٹ کلاس کرکٹ کی حقیقت ہیں۔

پی سی بی کو ان اداروں کی ٹیموں کو یا تو فرسٹ کلاس کرکٹ ٹورنامنٹ میں کھیلنے دینا چاہیے، یا مناسب ہوگا کہ اداروں کا ٹورنامنٹ علیحدہ طور پر کھیلا جائے تاکہ ادروں پر یہ ٹیمیں بوجھ نہ بنیں۔

پھر ایک بات جو سمجھ سے بالاتر ہے کہ اداروں کی ٹیمیں ہر سال فرسٹ کلاس کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلنے میں کروڑوں روپے نہ صرف خرچ کرتی ہیں بلکہ پورا سال لاکھوں روپے تنخواہ کی مد میں کھلاڑیوں کی جیبوں میں بھی ڈالتی ہیں۔

چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے پاکستان سپر لیگ کا انعقاد کرکے پاکستان کرکٹ کو ایک نئی سمت دی، اب انھیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرلینا چا ہیے کہ اداروں کی کرکٹ میں پاکستان کرکٹ کا کوئی نقصان نہیں۔

ان اداروں کو اہمیت دینی چاہیے جو ٹیمیں بنا کر کھلاڑیوں کی ذمہ داری با احسن و خوبی نبھا رہے ہیں اور سابق کرکٹرز کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کرکے پی سی بی کو بوجھ بانٹ رہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔