20 جنوری ، 2018
لاہور کی مال روڈ گزشتہ بدھ سارا دن گویا کسی میلے کا سماں پیش کرتی رہی ۔ آس پاس بھی تمام شاہ راہوں ، گلی کوچوں اور شہر کے دیگر حصوں میں صبح ہی سے موٹر سائیکل اور کاروں پر سوار جوشیلے اور نعرے لگاتے نوجوانوں کی ٹولیاں گھوم رہی تھیں۔
مختلف شکل و صورت اور مختلف لباس پہنے ، سروں پر رنگ برنگی ٹوپیاں رکھے یا پٹیاں باندھے ، ہاتھوں میں مختلف پارٹیوں کے چمکتے دمکتے رنگین اور ریشمی لہلاتے جھنڈے اٹھائے یہ نوجوان شہر بھر میں یوں نظر آرہے تھے جیسے ہر طرف رنگ و نور کی برسات ہو رہی ہو! ریلیوں میں شریک ہر جوان کی آخری منزل مال روڈ پر واقع وہ مقام تھا جہاں چند گھنٹوں بعد اپوزیشن جماعتوں کا احتجاجی جلسہ منعقد ہو نا تھا۔
سہ پہر ہو چلی تھی جب غربت و افلاس کے مارے پنجاب ، خاص طور پر لاہور کے چند باسی جلسہ گاہ میں موجود کرسیوں کے آس پاس منڈلا رہے تھے ۔ یہ سب لوگ آنکھوں میں امید سجائے قرب و جوار میں جلسے سے قبل صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے جب کہ موقعے پر موجود دیگر افراد کرسیوں پر براجمان ہونا شروع ہوگئے۔
پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے دعا گو یہ تمام لوگ انتہائی بے چینی سے انتظار میں تھے کہ تمام اپوزیشن رہ نما ایک دوسرے سے بغل گیر ہوں اور اسٹیج پر یکجا ہوکر قوم کے بہتر مستقبل کا اعلان کریں۔
سارا دن رنگ برنگےاور ریشمی جھنڈے تھامے نعرے لگاتے نوجوانوں اور اِن چند پُر امید بزرگوں کو علم تھا کہ عموماً اجتماعی جلسوں میں بڑے بڑے سیاسی رہ نما بھی ، چاہتے نہ چاہتے ہوئے ، اپنے مخالف سیاست دان سے خیر سگالی کے جذبے کے تحت یا کسی انتخابی اتحاد کی تشہیر کے لئے بغل گیر ہوجایا کرتے تھے ،ہاتھ ملاتے تھے ، ایک دوسرے کو دیکھ کرمسکرادیاکرتے تھے۔
اُنہیں قاضی حسین احمد اور عمران کا ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر تصویر کھنچوانا یاد تھا، انہیں چارٹرآف ڈیموکریسی کے موقعے پر لی گئی بے نظیر اور نواز شریف کی تصویربھی یاد تھی ، نائن زیرو پر آکر بے نظیر بھٹو کا بانی ایم کیو ایم سے ملنا بھی اُنہیں یاد تھا۔
جلسہ شروع ہونے تک اس خبر کو ان معصوم شہریوں نے افواہ سمجھاکیوں کہ خیال تھا کہ مولانا طاہر القادری اس بار سچ مچ کوئی بڑا سیاسی کارنامہ انجام دینے والے ہیں۔
چند بزرگو ں کو توسابق امریکی صدر رونالڈ ریگن اور سوویت رہ نما میخائل گورباچوف کا انتہائی غیر متوقع طور پر 1988 میں ملنا اور مل کر بغل گیر ہونا بھی یاد ہوگا! لہٰذا طاہر القادری اور عمران خان کے بظاہراِس جبری اتحاد کے تحت منعقدہ جلسوں اوردھرنوں کے طویل سلسلے میں پہلی بار کسی مقبول جماعت کے سربراہ کا شامل ہونا ان سب لوگوں کے لئے امید کی سب سے بڑی کرن تھی۔
لیکن یہ سارے خواب اُس وقت چکنا چور ہوگئے جب چند گھنٹوں پہلے سنی گئی بظاہرایک افواہ جلسے کے وقت ایک صحیح خبرثابت ہوئی۔ ان پُر امید شہریوں میں کوئی کہہ رہا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور پی ٹی آئی کے چئیر مین عمران خان ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے نہ ہی جلسے میں ایک ساتھ شریک ہوں گے ۔ جلسہ شروع ہونے تک اس خبر کو ان معصوم شہریوں نے افواہ سمجھاکیوں کہ خیال تھا کہ مولانا طاہر القادری اس بار سچ مچ کوئی بڑا سیاسی کارنامہ انجام دینے والے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مولانا در اصل کینیڈا کی سردیوں سے بچنے کے لئے جب پاکستان تشریف لاتے ہیں تو انہیں کچھ فرمائشی پروگرام سونپ دئے جاتے ہیں ۔ اِس کے بدلے، کہنے والے کہتے ہیں، کہ یہ اس عمر میں وہاں کی سردی سے بھی بچ جاتے ہیں اوریہاں بار بار حکومت کو ڈرانے کے کام بھی آجاتے ہیں۔ فیس بک انتظامیہ کی جانب سے آج اتفاق سے گزشتہ سالوں میں ہونے والے واقعات کی یاد تازہ کرنے والا ایک ایسا نوٹیفیکشن نظر آیا جس سے ثابت ہوا کہ مولانا کم و بیش اسی موسم میں یہاں سیاسی طور پر سرگرم ہوا کرتے ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ طاہر القادری اس بار خالصتاً موسم سرما کے اِس اتحاد میں سچ مچ کا عوامی رنگ بھرنے کے لئے پیپلز پارٹی کو بھی ساتھ لے آئیں گے۔ یعنی زرداری کو ہر وقت کوسنے والے کپتان اور کپتان کی بارہا مذمت کرنے والے زرداری اس اتحادی جلسے میں نون لیگ کی حکومت کو گرانے کے لئے ایک نئے اور وسیع تر اتحاد کا اعلان کریں گے۔
گزشتہ عام انتخابات کے نتائج پیپلز پارٹی کی پنجاب میں تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کا پہلا پیغام بن کر سامنے آئے تھے۔
امیدوں پر تھوڑا تھوڑا پانی تو اسی وقت پڑنا شروع ہوگیاتھا جب دوپہر تک اچھی خاصی کرسیاں خالی نظر آرہی تھیں۔ صورتحال میں مزید مایوسی اُس وقت پیدا ہوئی جب زرداری اور عمران کے ایک ساتھ جلسے میں شرکت نہ کرنے والی افواہ صحیح خبر ثابت ہو گئی۔ رہی سہی کسر رہ نماؤں کی تقاریر میں استعمال ہونے والی زبان اورمایوسی کے شدید اظہار نے پوری کردی ۔
جلسے کی ناکامی کا واضح مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نون لیگ کی حکومت گرانے کی بظاہر یہ چوتھی ’’بڑی‘‘ کوشش بھی ناکام ہوگئی ہے ۔ لیکن جس پہلو پر شاید اب تک توجہ نہیں دی گئی وہ یہ ہے کہ جلسہ چاہے جتنا ہی ناکام رہا ہو، اس میں آصف علی زرداری کی شرکت صوبہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو مستقبل قریب میں ایک فیصلہ کن سہارا ثابت ہوسکتی ہے ۔
گزشتہ عام انتخابات کے نتائج پیپلز پارٹی کی پنجاب میں تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کا پہلا پیغام بن کر سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد نون لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ شروع ہوا تو قومی سیاست میں پی پی پی کا کردار کم و بیش نہ ہونے کے برابر رہا۔ تجزیات کا سلسلہ بھی نون لیگ اور پی ٹی آئی کی بڑھتی یا گھٹتی مقبولیت کے فلسفوں کے گرد محدود رہے ۔ کہیں کونے کھدرے سے اگر پی پی پی کا ذکر آبھی جاتا تو اس میں غیر ضروری بیانات کے علاوہ بے نظیر پر حملے اور پھر ان کے قتل کے معاملات یا زرداری پر بد عنوانی کے الزامات تک محدود رہتا ۔
سال 2014کے طویل دھرنے کے بعد سے لیکر آ ج تک جہاں زیادہ تر انتخابی سروے نون لیگ کے حق میں جاتے دکھائی دئیے وہیں پی ٹی آئی نے پنجاب میں دوسری بڑی پارٹی کے طور پر اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔
دھرنے کے بعد جاری رہنے والی تمام ترسیاسی آنکھ مچولی ، پاناما کیس، مقدمے بازیاں اور پھر مزید دھرنوں کے سبب قومی سیاست کا تمام تر منبع نہ صرف پنجاب تک محدود رہا بلکہ پیپلز پارٹی صوبے میں عملاً ناپید ہوگئی ۔ قومی سیاسی دھارے میں خود کو شامل رکھنے کے لئے پی پی پی رہ نماؤں کے پاس بیانات اور تقاریر کے سوا عملاًکچھ نہیں بچا تھا ۔
سال 2008کے انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد پی پی پی کی مقبولیت کا گراف خاص طور پر پنجاب میں بتدریج گرتا ہوا اس حد کو آن پہنچا کہ پارٹی سے تعلق رکھنے والی چند شخصیات کی پی ٹی آئی سے بڑھتی قربت کی اطلاعات موصو ل ہونے لگیں ۔ چندکی پی ٹی آئی میں شمولیت کی خبریں بھی دیکھنے کو ملیں۔
اس صورتحال کے اسباب واضح تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پی پی پی پنجاب سے تعلق رکھنے والے رہ نماؤں، کارکنوں اور حمایتیوں کو اہم سیاسی منظر نامے پر اپنی جماعت کا کردار واضح طور پر کم ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ مزید یہ کہ خود جماعت کی سطح پر صوبے میں کوئی بڑا معرکہ بھی انجام نہیں دیا گیا۔
جلسہ اپنی ناکامی کے باوجود پی پی پی کی اعلیٰ ترین قیادت کے لئے ایک انتہائی سنہرا موقع بن کر سامنے آگیا۔
ویسے بھی ایک طرف پی ٹی آئی اور نون لیگ کی حکومت کے درمیان گھمسان کی مستقل سیاسی جنگ اور دوسری طرف مذہبی تنظیموں اور گروپس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں میں پیپلز پارٹی کے لئے کسی بھی سطح پر کسی سیاسی کردار یا عمل دخل کی گنجائش بنتے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
اِن حالات میں ضروری تھا کہ پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت پنجاب میں کسی نمایاں پلیٹ فار م پر جلوہ گر ہوکر مستقبل قریب میں اپنے کسی اہم سیاسی کردار کا خاطر خواہ کوئی ٹھوس اشارہ دے۔
لہٰذابدھ کا جلسہ اپنی ناکامی کے باوجود پی پی پی کی اعلیٰ ترین قیادت کے لئے ایک انتہائی سنہرا موقع بن کر سامنے آگیا۔ یہاں آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے چئیرمین سے دوری کے باوجود جلسے میں شرکت کرکے لاہور اور پنجاب میں اپنی جماعت کے بھولے بسرے حمایتیوں اور تذبذب کا شکار ووٹروں کو اپنے مکمل اور سرگرم وجود کا بھرپور احساس دلا دیا ہے۔
یہ کہنا یقیناًقبل از وقت ہے کہ یہ شروعات پنجاب میں پی پی پی کی کھوئی ہوئی مقبولیت پھر سے مکمل طور پر لوٹا سکتی ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس جلسے کے بعد پنجاب میں کمزور مد مقابل سمجھنا نون لیگ اور پی ٹی آئی دونوں کے لئے نقصان کا سودا ثابت ہو سکتا ہے ۔ اورانتخابات میں اب بھی چند ماہ باقی ہیں!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔