پاکستان
Time 22 جنوری ، 2018

سینٹ: بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی سفارش

اسلام آباد: سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے زینب کیس کی روشنی میں 14 سال سے کم عمر بچوں سے زیادتی کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی دینے کی سفارش کردی۔

کمیٹی نے سفارش کی کہ سرعام پھانسی کے لیے تعزیرات پاکستان میں ترمیم کی جائے۔

دوسری جانب زینب کے والد محمد امین نے کمیٹی کو بتایا کہ پولیس کو واقعے کی اطلاع دی تواس نے مستعدی نہ دکھائی، بس آتی جاتی رہی، چائے پیتی اور کینو کھاتی رہی۔

پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی ابو بکر خدا بخش نے زینب قتل کیس میں قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے 6 بچیوں کے قتل میں ایک ہی مجرم کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا۔

پنجاب کے ضلع قصور سے اغوا کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔

زینب کے قتل کے بعد ملک میں شدید احتجاج کیا گیا جب کہ چیف جسٹس پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا لیکن پولیس تاحال ملزم گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔

زینب کے والد کی بریفنگ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت ہوا جس میں مقتولہ زینب کے والد محمد امین اور پنجاب پولیس کے  ڈی آئی جی ابو بکر خدا بخش بھی شریک ہوئے۔

محمد امین نے بتایا کہ جس روز بچی اغوا ہوئی اسی رات ہم نے ریسکیو 15پر کال کی تھی، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت بچی کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، میری بیٹی کے پاس اس روز پیسے بھی تھے۔

محمد امین نے کہا کہ  اس روز میرا بھتیجا عثمان بیٹی کے ساتھ سپارہ پڑھنے گیا تھا، ہم نے اپنی فیملی کے سب سے پہلے ڈی این اے کرائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب لاش ملی تھی اس وقت سونگھنے والے کتوں سے ملزم کی شناخت ہو سکتی تھی۔

زینب کے والد نے کمیٹی کو بتایا کہ پولیس کی طرف سے بعض لوگوں کو تنگ کرنے کی شکایت بھی آرہی ہے، ہم مجرم کو اپنی آنکھوں سے سزا پاتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

ڈی آئی جی کی بریفنگ

ڈی آئی جی ابو بکر خدا بخش نے کمیٹی کو بتایا کہ بچی کی لاش ایک پولیس کانسٹیبل صابر حسین نے ہی تلاش کی، سال 2015 سے اب تک ایسے 11 واقعات ہوئے ہیں، اکتوبر2017 سے اب تک 696 ڈی این اے لیے گئے، 692 لوگوں سے تحقیقات کیں، ہمیں 125 ڈی این ایز کے رزلٹ کا انتظار ہے۔

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ 6 بچیوں کے قتل کا مجرم ایک ہی ہے۔

مزید خبریں :