23 جنوری ، 2018
کراچی: شاہ لطیف ٹاؤن پولیس مقابلے میں 13 جنوری کو نقیب اللہ محسود کے ساتھ مارے گئے دیگر 3 ملزمان کی ہلاکت کی بھی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔
نقیب اللہ محسود قتل کیس کی تحقیقاتی کمیٹی میں شامل ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نے تینوں ملزمان کےکرمنل ریکارڈ کے لیے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئی جیز کو خط لکھ دیے جبکہ سندھ کے ڈی آئی جیز کو بھی معلومات دینےکا کہا گیا ہے۔
دوسری جانب تینوں ملزمان کے شناختی کارڈ نمبر، تصاویر اور دیگر تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
راؤ انوار کا دعویٰ تھا کہ مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ جیل توڑنے، صوبیدار کے قتل اور ایئرپورٹ حملے میں ملوث مولوی اسحاق کا قریبی ساتھی تھا۔
ایک اور ہلاک ملزم محمداسحاق بہاولپور کے نواحی علاقے احمدپور شرقیہ کا رہائشی تھا، جبکہ مقابلے میں مارے گئے نذر جان اور نسیم اللہ جنوبی وزیرستان ایجنسی کے رہنے والے تھے۔
تاہم نقیب کے اہلخانہ نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا جس کے بعد نوجوان کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور چیف جسٹس پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔
بعدازاں سوشل میڈیا اور میڈیا پر معاملہ اٹھنے کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی تھی۔
تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس پارٹی کے سربراہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کرکے گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی جس پر انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔
دوسری جانب نقیب اللہ کے قتل میں ملوث پولیس پارٹی کو بھی معطل کیا جاچکا ہے۔