Time 25 جنوری ، 2018
پاکستان

کراچی: پولیس کی سرپرستی میں ریتی، بجری کا کاروبار، مالیت ’ایک ارب روپے‘ ماہانہ

کراچی کا ضلع ملیر ’اوپر کی کمائی‘ کے حوالے سے انتہائی پرکشش اور مافیاز کے غیرقانونی دھندوں کے حوالے سے ’سونے کی چڑیا‘ کہلاتا ہے۔

یہ ملیر گذشتہ کئی سالوں سے صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چہتے قرار دیے گئے معطل پولیس افسر راؤ انوار کے زیر کنٹرول رہا ہے۔

کراچی کے نواحی اور زیادہ تر دیہات پر مشتمل ملیر ویسے تو غیر قانونی دھندوں کے حوالے سے بدنام ہے لیکن پولیس اور دیگر کئی متعلقہ اداروں کی اصل ’کمائی‘ شہر کے تعمیراتی منصوبوں میں کثرت سے استعمال ہونے والی ریتی اور بجری اٹھانے کا غیرقانونی کاروبار ہے۔

اس حوالے سے ملیر کے چار تھانے شاہ لطیف ٹاؤن، سچل، میمن گوٹھ اور گڈاپ سٹی، ایس ایچ اوز کی پوسٹنگ کے حوالے سے انتہائی پرکشش رہے ہیں۔

اس طرح کی کرپشن ناپنے کا کوئی پیمانہ تو نہیں ہے لیکن شہر میں تعمیرات کے فی مربع فٹ کے ریٹس کا حساب کتاب کرنے یا اس کاروبار سے وابستہ لوگ ریتی بجری کے دھندے کے "کالے بجٹ" کا تخمینہ ایک ارب روپے ماہانہ لگاتے ہیں۔

واضح رہے کہ کراچی خاص طور پر ضلع ملیر میں ریتی بجری اٹھانے پر دفعہ 144 کے تحت پابندی ہے تاہم پولیس کی مبینہ سرپرستی کے باعث کاروبار جاری ہے۔

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اس علاقے کی وسیع و عریض ملیر ندی، برساتی نالوں اور اطراف کی سرکاری اراضی سے ریتی بجری اٹھانے والے ڈمپرز کو فی پھیرا ایک ہزار روپے علاقہ پولیس کو دینے پڑتے ہیں۔

ریتی بجری ٹرک اونرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار ایس ایس پی تک بھی یومیہ حساب کتاب پہنچاتے ہیں۔

ریتی بجری اٹھانے والے عام طور پر شام ہونے کے بعد سرگرم ہوتے ہیں اور یہ کاروبار رات بھر جاری رہتا ہے۔

ملیر کے شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کی حدود میں رواں ماہ نقیب اللہ محسود سمیت چار افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔

شالطیف ٹاون تھانے کے اس علاقے میں ریتی بجری کے غیر معمولی ذخائر ہیں جبکہ پولیس کی مبینہ سرپرستی میں ریتی بجری اٹھانے والوں نے علاقے کو چھید کر رکھ دیا ہے جس کے باعث کئی کلومیٹر تک کی ملیر ندی کھنڈرات بنی نظر آرہی ہے۔

مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ حکام کو خدشات ہیں کہ کسی سیلاب آنے کی صورت میں علاقے میں غیر معمولی تباہی ہوسکتی ہے۔

محکمہ مائنز اینڈ منرل کے افسران اس گھمبیر صورتحال پر پولیس کے خلاف رپورٹس جمع کرا چکے ہیں۔

ریتی بجری اٹھانے سے علاقے میں پانی کی زیر زمین سطح انتہائی گہرائی میں جاتی جا رہی ہے اور کاشت کاری کے حوالے سے بہترین یہ علاقہ بنجر بنتا جا رہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ حکومت یا کسی سرکاری ادارے کو کوئی فائدہ بھی نہیں۔ کروڑوں روپے ماہانہ ریتی بجری اٹھانے والی مافیا پولیس اور متعلقہ اداروں کی جیبوں میں جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ کا کہنا ہے کہ ریتی بجری کے حوالے سے الزامات سابق ایس ایس پی راؤ انوار احمد اور ان کے ماتحت ایس ایچ اوز اور ان کی ٹیم پر تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام ایسے کرداروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پولیس کی سرپرستی میں یہ کام جاری تھا تو ایسے افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

مزید خبریں :