27 جنوری ، 2018
امریکی ڈرون حملوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی خود مختاری کو للکارا ہے اور ہم اس مرتبہ بھی صرف مذمت کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکے، گو عرصہ دراز سے ہم ایسے حملوں کو اپنی خود مختاری پر حملہ قرار دیتے آ رہے ہیں لیکن امریکا بہادر اس احتجاج کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا اور نہ ہی کرے گا، اس کے لیے ہمیں تھوڑا سا تاریخ میں جھانکنا ہو گا۔
ایک ہزار سال پیشتر دنیا دو بلاکس میں تقسیم تھی، ایک طرف مسلمانوں کی شاندار اور عظیم تہذیب اور حکومتیں تھیں، دوسری طرف خوں خوار اور وحشی مغل جنہوں نے خوارزم شاہی حکومت اور پھر خلافت عباسیہ کو تنکوں کی طرح بکھیر دیا اور خلیفہ بغداد کو ہاتھیوں تلے روند کر ان کے جسم کا قیمہ بنا دیا۔
اسی زمانے میں یورپ میں بنی امیہ کے ایک شہزادے نے شاندار تہذیب وتمدن کی بنیاد ڈالی اور اجڈ، وحشی، یورپ کو کپڑے پہننے کے سلیقے سے آگاہ کیا، آداب معاشرت سکھلائے اور اندلس کی جامعات میں پڑھایا اور انہی لوگوں نے آکسفورڈ اور کیمبرج کی طرح ڈالی۔
چودہ سو بانوے میں سلطان عبداللہ الحمرا کی چابیاں فرنگی بادشاہ اور اس کی ملکہ کے حوالے کر کے روتا ہوا رخصت ہوا اور مسلمان آٹھ سو برس حکومت کر کے بھی اجنبی ٹھہرے اور آج مسلمان وہاں کتنے ہیں سب جانتے ہیں۔ اسی صدی میں ایک نئی سپر پاور جنم لے رہی تھی، ایک ترک سردار عثمان اس کا بانی تھا۔
اس عظیم سپر پاور نے اگلی تین چار صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کرنا تھی، سلطان بایزید پیرس کے دروازے پر دستک دے رہا تھا کہ امیر تیمور کے حملے نے اسے واپسی کی راہ دکھائی اور مسلمان اس کے بعد کبھی وہاں نہ پہنچ سکے وگرنہ دنیا کی تاریخ آج کچھ اور ہوتی، سولہویں صدی میں ایک اور سپر پاور نے جنم لیا اور ہندوستان میں شاندار مغل تہذیب کا جنم ہوا اور پھر زوال کا آغاز ہوا۔
ابن خلدون بھی یہی کہتا ہے، عثمانی اور مغل سلطنت کے کھنڈروں پر گریٹ برٹش ایمپائیر نے اپنی تاریخ لکھی، شہنشاہ نپولین بھی جس کے آگے ناکام رہا اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سویا ہوا امریکا اٹھ رہا ہے اور برطانوی غلامی کا طوق اتار پھینکتا ہے، ایک نئی سپر پاور کا جنم ہوا چاہتا ہے، یورپ کا مرد بیمار ترکی اب بے بس ہو چکا ہے، نیا ورلڈ آرڈر آ چکا اور سوویت یونین بنتاہے۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم ہوتی ہے اور نتیجہ یہ کہ دنیا امریکی اور روسی دو بلاکس میں تقسیم ہو جاتی ہے، گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش سوویت یونین کو افغانستان پر حملہ کرنے پر اکساتی ہے اور یہی غلطی اس کا خاتمہ کر دیتی ہے، بس اب ایک ہی سپر پاور ہے اور وہ ہے ریاست ہائے متحدہ امریکا۔
اس وقت پاکستان نے جو ساتھ دیا سب کچھ بھلا دیا گیا، کون سا ساتھ بھئی؟ نیا ورلڈ آرڈر آتا ہے، امریکی من مانیوں کا آغاز ہوتا ہے، عراق پر حملہ، فلسطین کا مسئلہ، لیبیا، شام، مصر ، افغانستان، ایران پر پابندیاں۔ انتہا پسند بش جاتا ہے اور اوباما آتا ہے، ذرا دھیما چلتا ہے، دنیا کے مسائل کم نہیں ہوتے، بڑھتے ہیں اور اب وائٹ ہاؤس میں خود امریکی تاریخ کا متنازع ترین صدر قدم رنجہ فرما چکا ہے۔
سات ممالک کے مسلمانوں پر امریکا کی سرزمین تنگ کر دی گئی ہے، البتہ ان ممالک کے یہودیوں کے لئے کھلی ہے، پاکستان کو وارننگ پر وارننگ دی جا رہی ہے، ہندوستان سے دوستی بڑھتی جاتی ہے، نیا ٹرمپی ورلڈ آرڈر اب دنیا کو نئی تقسیم کروا رہا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین جو پاکستان کا عظیم دوست ہے سپر پاور کو للکار رہا ہے، چین ایک نئی سپر پاور بننے جا رہا ہے، پاکستان اب چین کے ساتھ ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سات دہائیوں سے بھارت کی سرپرستی کرنے والا روس اب گرم پانیوں کے لئے پاکستان اور چین کے ساتھ کھڑا ہے۔
نیا بلاک جنم لے چکا ہے، فلسطین کے صدر نے پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، سابق سوویت یونین کے آخری صدر میخائیل گورباچوف تیسری عالمگیر جنگ کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں، نیٹو اور روسی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا ورلڈ آرڈر جاری کر رہے ہیں، پاکستان سمیت ان تمام ممالک کو دھمکیاں دے رہے ہیں جن کو امریکہ امداد دیتا ہے۔
یکم جنوری کو پاکستان کو سال نو کا پہلا تحفہ ایک نئی دھمکی کی صورت میں مل چکا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھارت کا محبت بھرا دورہ کر چکے ہیں، فری بلوچستان اور فری کراچی کی امریکہ اور یورپ میں مہم جاری ہے، ہر روز پاکستانی سرحدوں پر بھاری گولہ باری جاری ہے، ہمارا دفتر خارجہ اس حوالے سے بار بار احتجاج کر رہا ہے، بھارتی وزیر اعظم ٹرمپی نشے میں چور پاکستان کا پانی بند کرنے اور سندھ طاس معاہدے کی تنسیخ کی بات کر رہے ہیں، دنیا کا ایک نیا منظر نامہ تشکیل پا رہا ہے جو جلد ایک نیا رخ لے گا۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیںحال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔