28 جنوری ، 2018
کراچی: شاہ لطیف ٹاؤن میں جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے ساتھ مارے گئے قاری اسحاق کے ورثاء نے بھی سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا اعلان کردیا۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ شاہ لطیف ٹاؤن جعلی مقابلے میں مارا گیا محمد اسحاق سوا سال سے لاپتہ تھا اور اسے سوا سال قبل احمد پور شرقیہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔
بھائی محمد یوسف کے مطابق محمد اسحاق احمد پور شرقیہ کے گاوں حیدر پور لنگ گراواں کا رہائشی تھا اور گاؤں میں واقع مدرسہ تعلیم القران کا مہتمم تھا۔
بھائی کا کہنا ہے کہ اسحاق نے میٹرک کے بعد دارلعلوم مدنیہ بہاولپور سے حدیث کی تعلیم مکمل کی اور 1997 سے 2000 تک مدرسہ نظامیہ میں درس نظامی پڑھایا۔
اہلخانہ نے بتایا کہ 11 نومبر 2016 کو پولیس موبائل اور کاروں میں سوار سادہ لباس اہلکار محمد اسحاق کو مدرسے سے اٹھا کر لے گئے تھے جب کہ کچھ عرصے بعد دوسرے بھائی زکریا کو بھی زیرحراست رکھ کر 8 ماہ بعد چھوڑ دیا گیا۔
بھائی کے مطابق محمد اسحاق کے لاپتہ ہونے کے دوران والدہ بھی صدمے سے انتقال کرگئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کی خبر پڑھ کر محمد اسحاق کی لاش شناخت کرکے وصول کی جس کے بعد مقتول کو آبائی گاؤں میں سپردخاک کردیا گیا۔
اسحاق کے بھائی کا کہنا ہے کہ اسحاق بے گناہ تھا، راؤ انوار کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے اور جلد کراچی آکر مقابلے کی انکوائری کمیٹی کو بیان ریکارڈ کرائیں گے۔
یاد رہے کہ رواں ماہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا لیکن سوشل میڈیا پر نوجوان نقیب اللہ محسود کی تصاویر سامنے آنے کے بعد معاملے کی انکوائری کا حکم دیا گیا تھا۔
انکوائری کمیٹی نے نقیب اللہ محسود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے مقابلہ جعلی قرار دیا تھا اور سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو عہدے سے ہٹاکر ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔
دوسری جانب گذشتہ روز سپریم کورٹ نے پولیس کو راؤ انوار کو گرفتار کرنے کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔