02 فروری ، 2018
یہ کل ہی کی بات ہے، جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے دیا گیا اور ملک کی اعلیٰ عدالت نے انہیں جرم کی سزا بھی سنادی۔ نہال ہاشمی سینئر وکیل بھی ہیں اور عدالتی تقاضوں کو بہتر طور پر جانتے ہیں لیکن چونکہ کہ وہ ایک سیاسی کارکن بھی ہیں، اس لیے جذبات کے غلبے میں کچھ آگے نکل گئے، جسے گذشتہ برس کی گئی ایک تقریر میں ان کے دھمکی آمیز لہجے کے طور پر دیکھا گیا، بہرحال انہوں نے اپنی غلطی پر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ کر معاملہ عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور معزز عدالت نے گہرائی سے معاملے کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ توہین عدالت کے معاملات میں عدالت پہلے بھی ایسے فیصلے دے چکی ہے اور سزا کے خلاف اپیل کا حق بھی موجود ہے۔ ماضی قریب میں دیکھیں تو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی سزا سنائی گئی تھی، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی اسی طرح کی توہین عدالت کی درخواست کو عدلیہ نے قانونی نکتہ نظر سے مسترد کردیا تھا۔ اسی طرح سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے خلاف بھی توہین عدالت کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔
توہینِ عدالت یعنی Contempt of court، عدالت کے طریقہ کار میں کسی ذریعے سے مداخلت، گمراہ کرنے، بالواسطہ یا بلاواسطہ دھمکی دینے، عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچانے یا حکم عدولی کو کہتے ہیں جبکہ معافی مانگنے پر عدالت کو اختیار ہےکہ وہ ملزم کو معاف کرکے بری کردے یا معافی کو مسترد کرتے ہوئے اس کو سزا سنا دے۔
آئین اور قانون کی پاسداری ہر شہری پر لازم ہے اور ملکی آئین اور قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے اداروں پر حکومت پاکستان اربوں روپے کے اخراجات کرتی ہے۔ پاکستان کے آئینی ادارے، قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اختیارات رکھنے والے اداروں کے نگران بھی ہیں، لہذا ان اداروں کے اختیارات کو استعمال کرنے والے افسران اور ملازمین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین پر خود بھی عمل کریں اور عوام سے بھی عمل درآمد کرائیں۔
لیکن جب قانون اور آئین کی پاسداری اور ان پر عمل درآمد کے لیے بنائے گئے ادارے اپنا کام کرنے سے قاصر ہوجائیں تو لاقانونیت بڑھتی ہے۔ جب طاقتور اور بااثر شخصیات، سیاسی قوت اور اداروں کے اختیارات کو خلاف آئین اور غیر قانونی طور استعمال کرتی ہیں تو عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے اور جب معاشرہ ان کمزوریوں کا شکار ہوجائے تو اس عمل کے خلاف غریب اور کم زور آدمی اپنا حق چھین کر لینے کی بات کرتا ہے اور بغاوت کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہر طبقے اور شعبے سے تعلق رکھنے والے خاص و عام کو آئین اور قانون کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔