08 فروری ، 2018
اسلام آباد: نقیب اللہ محسود کے کراچی میں ماورائے عدالت قتل کے خلاف اسلام آباد میں دھرنے کے شرکا دو دھڑوں میں بٹ گئے۔
اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر دھرنا گزشتہ ہفتے سے جاری تھا تاہم منگل کے روز وزیراعظم سے ملاقات اور پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری سمیت دیگر مطالبات پر عمل درآمد کی یقین دہانی پر بیشتر مظاہرین اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
تاہم کچھ شرکاء اب بھی پریس کلب کے باہر موجود ہیں جن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے نوٹی فکیشن کے اجراء اور راؤ انوار کی گرفتاری تک دھرنا جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا۔
بعدازاں نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
بعدازاں آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کی، جس کے باعث انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔
جس کے بعد انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ نے راؤ انوار کا سراغ لگانے کے لیے حساس اداروں سے بھی مدد مانگ لی اور ان کی تلاش میں چھاپے بھی مارے گئے لیکن تاحال راؤ انوار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا اور وہ بدستور مفرور ہیں۔
یکم فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ کو راؤ انوار کو گرفتار کرنے کے لیے 10 دن کی مہلت دی تھی۔