فروغ تجارت کیلئے بحری راہداریوں پر توجہ کی اشد ضرورت

دنیا کی معیشت میں تجارت کا اہم ترین ذریعہ بحری راہداریاں ہیں، اقوام کی تاریخ دیکھیں تو بحری تجارت پر خصوصی توجہ دینے والے ممالک نے نمایاں ترقی کی اور دنیا کے کئی خطوں میں اپنے مفادات کے لئے اثر و رسوخ قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ 

صرف ایشیاء میں بڑی اور چھوٹی 1720 بندرگاہیں اور جیٹیاں موجود ہیں جہاں بین الاقوامی اور خطے کے ممالک کے درمیان تجارت کے لئے نقل و حمل کا بڑا ذریعہ بحری راہداری ہے۔

پاکستان میں بحری تجارت اور اس سے منسلک کاروبار اور تفریحی منصوبوں پر مقامی سرمایہ کاری کی ضرورت زور پکڑتی جارہی ہے جب کہ مقامی تاجروں، صنعتکارو ں اور سرمایہ کاروں کو میری ٹائم سیکٹر کی طرف دلچسپی دلانے کے لئے کے لئے ون ونڈو آپریشن جیسی سہولتوں کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔

پاکستان کی ساحلی پٹی ایک ہزار چھیالیس کلو میٹر پر محیط ہے، ملک میں تین فعال بندرگاہیں موجود ہیں، ملک کی اہم ترین بندرگاہ کراچی کے بعد پورٹ قاسم بھی گزشتہ کئی سالوں سے مکمل طور پر فعال ہے۔

ملک کی سب سے بڑی اور جدید بندرگاہ کراچی پورٹ پر سالانہ پچاس ہزار ٹن سے زائد کارگو ہینڈل کیا جارہاہے، سال 17-2016 کے دوران کراچی کی بندرگاہ پر 1922 تجارتی جہازوں کی آمدورفت ہوئی جبکہ 52 ملین ٹن سے زائد مال کی ترسیل ہوئی ۔

کراچی میں دوسری اہم بندرگاہ پورٹ قاسم پر اس سال 1407 تجارتی جہازوں کی آمدورفت ہوئی، ملک کی تیسری اور مستقبل کی اہم بندرگاہ گوادر بلوچستان میں واقع ہے جسے خطے میں گیم چینجر کہا جارہا ہے، یہ بندرگارہ دنیا بھر میں اہمیت حاصل کئے ہوئے اور عنقریب مکمل طور پر فعال ہوجائے گی۔

گوادر پورٹ کے ساتھ خطے کا اہم ترین منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری زیر تعمیر ہے جس کی تکمیل سے چین اور وسط ایشیائی ممالک کو پاکستان کے تعاون سے دنیا بھر سے تجارت کے لئے بیک وقت زمین اور بحری تجارتی راہداری دستیاب ہوگی۔

سابق ڈی جی پورٹ اینڈشپنگ اور ماہر بحری امور تجارت کیپٹن انور شاہ کہتے ہیں کہ عالمی تجارت کا 80 فیصد حصہ بحری تجارت ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب اسی فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تجارت کا 70 فیصد سے زائد حصہ بحری تجارت سے وابستہ ہے، دنیا میں سمندر کے ساتھ آباد ممالک کی بندرگاہیں جدید خطوط پر استوار کی جارہی ہیں جب کہ جنوبی ایشیاء میں چین آٹھ بندرگاہوں کو جدید بنانے کے امور میں ان ممالک سے خصوصی تعاون کر رہا ہے۔

گزشتہ دنوں چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا دورہ کیا جس کا مقصد مقامی تاجر برادری اور بحری شعبے کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا تاکہ ملکی معیشت کو فروغ دیا جا سکے۔ 

نیول چیف نے بحری شعبے میں اقتصادی سرگرمیاں شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ ملک کی بحری معیشت کو مستحکم بنا کر ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو تین گنا تک لے جایا جا سکتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ نیشنل میری ٹائم پالیسی کا ڈرافٹ ابھی تک حتمی پالیسی کی شکل اختیار نہیں کر پایا ہے، جامع میری ٹائم پالیسی کے تحت پاکستان کے بہت متحرک بحری شعبے کی حکمت عملی میں جامع اصلاحات لانا ضروری ہے۔ 

اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ بندرگاہ کے امور کسی ایک متحدہ کمان یا کم از کم ایک مربوط کوشش کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

ملک کے بحری شعبے کو الگ الگ وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے نمٹایا جارہا ہے، کوئی ایسا مربوط طریقہ کار ہونا چاہیے کہ قومی سمندری علاقوں سے فوری اور طویل مدت کے فوائد حاصل کیے جاسکیں۔

یہ تجاویز بھی سامنے آرہی ہیں کہ وفاقی سطح پر ایک اعلیٰ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینا چاہیے جس میں صوبائی اور مقامی حکومتیں بھی شامل ہوں۔

بحری وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ترقی کے امکانات روشن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون، صنعتی علاقے، ماہی گیری، اسٹوریج کی سہولیات بندرگاہوں کے قریب واقع ہوں، نیز ریل اور سٹرک کے ذریعے بندرگاہوں سے منسلک ہوں، بندرگاہوں سے سامان کی اندرون اور بیرون ملک ریل اور روڈ ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی اہمیت اختیار کررہا ہے۔

پاکستان کے پاس کھلے سمندر میں جہاز پر کام کرنے والے 20 ہزار سے زائد ’’جہازی‘‘ (Seafarers)ہیں جنہیں انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن نے قابل، مؤثر اور محنتی تسلیم کیا ہے۔ لیکن نائن الیون کے بعد بین الاقوامی جہازوں پر ان کی تعداد میں نمایاں کمی ہوگئی ہے۔ 

اب صرف ایک تہائی پاکستانی جہازی ملازمت کررہے ہیں اور ملک کی معیشت میں سالانہ 25 ملین ڈالرز کی رقم شامل کر رہے ہیں۔

جہاں حکومت کو پی این ایس سی اور نجی شعبے میں جہازوں کی خریداری کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے وہاں بین الاقوامی جہازوں پر ان کی تعداد بڑھانے کے لیے سفارتی کوششیں بھی کرنی چاہییں، میری ٹائم سیکٹر میں تجارت اور کاروبار کے کئی شعبے موجود ہیں جہاں مقامی سرکایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔