ایم کیو ایم میں اختیارات کی جنگ : نقصان کس کا؟

— فوٹو:فائل

کراچی کی اسٹریٹ پاور میں اہم حیثیت رکھنے والی سابقہ سے پیوستہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ان دنوں عجیب دوراہے پر کھڑی ہے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ منظم اور شہری علاقوں کا مینڈیٹ رکھنے والی سیاسی جماعت اب غیر منظم اور تقسیم نظر آتی ہے۔

22 اگست کے بعد شہری سیاست میں جو نشیب و فراز آئے اس کے بعد ایم کیوایم پاکستان کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنی پڑی۔ دوسری جانب ایم کیوایم سے علیحدہ ہوکر قائم ہونے والی پاک سرزمین پارٹی بھی شہری سیاست میں پنجے گاڑتی نظر آرہی ہے۔

ایک موقع یہ بھی آیا کہ دونوں جماعتوں میں اتحاد کی پینگیں بڑھیں لیکن بعد میں الزامات کی بارش میں دونوں علیحدہ کھڑے ہوگئے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ لیڈر شپ پر اعتماد کا مسئلہ شدت اختیار کرگیا۔ معاملہ روٹھنے منانے اور الفاظ کی جنگ کا نہیں، مسئلہ اختلاف رائے کا بھی نہیں بلکہ بات ہے اختیارات کی۔

بات کی جارہی ہے کہ سربراہ اور رابطہ کمیٹی کے اختیارات میں توازن ہونا چاہیے جب کہ ایک موقف یہ بھی ہے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر فاروق ستار کو مکمل اور ویٹو کے اختیارات حاصل ہونا چاہیے۔

ماضی میں سینیٹ ہوں عام انتخابات یا بلدیاتی انتخابات اس تنظیم میں پارٹی ٹکٹس کی تقسیم کا عمل انتہائی منظم انداز میں نظر آتا تھا جس کی میڈیا میں اطلاع کے بعد کبھی اختلاف دیکھنے میں نہیں آیا۔

قیادت میں تبدیلی کے بعد اب یہ نظر آرہا ہے کہ قیادت پر نہیں لیکن اختیارات پر باقاعدہ اختلاف رائے موجود ہے۔ رہنماؤں کے داؤ پیچ دیکھ کر یہ بھی لگ رہا ہے کہ پلیٹ فارم تو یہی رہے گا لیکن اختلاف رائے کے ساتھ برداشت کی تربیت بھی جاری ہے۔ کارکنوں اور عوام کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اختلاف رائے ہے مگر مزید کوئی تقسیم نہیں ہورہی۔

ڈاکٹر فاروق ستار کے بیانات سے پتہ لگ رہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ سر براہ کی حیثیت سے ان کے فیصلوں کو من وعن مانا جانا چاہیے۔ وہ آئین کے تحت کسی کمیٹی کو تحلیل کرنے یا کسی کو معطل کرنے اور شوکاز جاری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

تنظیم کے آئینی ڈھانچے میں رابط کمیٹی کے اختیارات کی بات کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہےکہ سربراہ کے اختیارات محدود ہونا چاہیے بانی جیسے اختیارات دینا ممکن نہیں ہے۔ اس تمام معاملے میں سینئر رہ نما، عہدیداران اور کارکنان فکر اور تشویش میں مبتلا ہیں کہ کہیں ایم کیوایم پاکستان مزید تقسیم نہ ہوجائے۔

یہ بھی کہا جارہا ہےکہ موجودہ ممبران اسمبلی و سینیٹ کو ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ جو صورتحال ہے اس میں آپ کی پارٹی کے اختلافات کے پیش نظر آئندہ آپ کو موقع ملنے کی امید نہیں ہے لہذا فائدہ اٹھالیجئے۔

گزشتہ کئی روز سے سینیٹ کے ٹکٹس کے معاملے پر ایم کیو ایم پاکستان میں اختلافات کبھی زور پر اور کبھی ایک دوسرے کو معاملہ فہمی اور جماعت کو بچانے پر بیانات دئیے جاتے رہےہیں۔ اب ایم کیوایم پاکستان کا آئین اہمیت اختیار کرگیا اور اسی تناظر میں بہادر آبا د اور پی آئی بی گروپ نے اپنے اپنے فیصلے کرڈالے۔

صورت حال یہ بن گئی ہےکہ بٹوارہ ہو ہی جائے اور رابطہ کمیٹی میں شامل رہنماؤں نے کمیٹی کے اجلاس میں ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے جبراً سبکدوش کردیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کو لاپرواہی تنظیمی معاملات میں عدم دلچسپی اور ذاتی امور کو ترجیح دینے جیسے الزامات کی زد میں لایا گیا۔

ان پر ایم کیوایم پاکستان کی رجسٹریشن میں تاخیر، ممبران کے گوشواروں کو جمع کرانے میں لاپرواہی، فلاحی ادارے کے کے ایف کے غیر فعال ہونے کی ذمہ داری عائد کی گئی۔ گوکہ ڈاکٹر فاروق ستار کی زندگی کا بڑا حصہ ایم کیوایم کے پلیٹ فارم سے شہری حقوق کی جدوجہد میں گزرا، وہ کئی مرتبہ جیل بھی گئے اور پارلیمانی سیاست میں سندھ کے شہری علاقوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی لیکن بحیثیت سربراہ ان کی غلطیوں اور خامیوں کو اب عام کردیا گیا۔

شہری سیاست سے وابستہ طبقہ اور ایم کیوایم پاکستان کے کارکنان اور ووٹرز اس صورت حال میں ناامیدی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔

رابطہ کمیٹی نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو کنوینر مقرر کردیا ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بھی سینئر رہنما ہیں اور اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ " سربراہ کے لئے اب شخصیت کی بات نہیں ہوگی چہرے تبدیل ہوتے رہیں گے"۔

دونوں جانب سے تحمل کے مظاہرے پر یہ تاثر مل رہا ہے کہ غیر محسوس طریقے سے تنظیم کے بنیادی ڈھانچے اور آئین میں تبدیلیاں لائی جارہی ہیں اور یہ توقع ہے کہ اس سے بہتری آئے گی ۔

ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے رد عمل میں رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرنے اور اس کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی صورت میں آیا۔ انہوں نے ایک جملہ یہ ادا کیا کہ اب ہم" پتنگ کو کاٹنے کے لئے چرخی لیں گے"۔ پتنگ کا نشان شہری سندھ کی سیاست میں اہم علامت رہا ہے اور ایم کیوایم گزشتہ تین دہائیوں سے اسی انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہے۔

شہری سندھ خصوصا کراچی کے عوام کے لئے اب یہ بات اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ ان کے دیرینہ مسائل حل کئے جائیں۔ پینے کے پانی سمیت بنیادی سہولتوں کی فراہمی، بہتر تعلیم و صحت کے ادارے، روزگار کے مواقع، گندگی سے صاف ماحول، کھیل اور تفریحی سرگرمیوں کےلئے مقامات ان کی آئندہ نسلوں کے مستقبل کےلئے ضروری ہیں۔

ماضی کی مہاجر قومی موومنٹ سے نکل کر حقیقی، ایم کیوایم پاکستان، پی ایس پی کے بعد بہادر آباد اور پی آئی بی تک تمام سیاسی اکائیوں کو بہرحال عوام میں جانے کے لئے یہ معاملات ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔