13 فروری ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور متعلقہ یونین کونسل سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی بنی گالا میں واقع رہائش گاہ کا اجازت نامہ اور دستاویزات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں بنی گالا میں غیرقانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 'عمران خان نے اپنی پراپرٹی کی باؤنڈری کر لی ہے اور کیا عمران خان نے گھر کی تعمیر کی اجازت متعلقہ ادارے سے لی تھی'۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ 'تعمیرات اور تجاوزات کے ایشو پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے تعاون نہیں کیا، جبکہ عدالت نے تمام فریقین کے ساتھ ملاقات کر کے تجاویز دینے کا کہا تھا'۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ 'ہر قسم کی تعمیر کو بنی گالا میں روک دیا جائے اور گیس اور بجلی کے محکموں کو بھی این او سی جاری کرنے سے روک دیا جائے'۔
بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'بنی گالا میں تین قسم کی پراپرٹی ہے، نجی مالکان کو اپنی جائیداد کو مرضی سے استعمال کی اجازت ہے'۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'بلڈنگ ریگولیشنز کی پابندی کرنا ہوگی'۔
تاہم بابر اعوان نے دلائل دیئے کہ 'سی ڈی اے کا نجی پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں، اسلام آباد کارپوریشن کی 50 یونین کونسلز ہیں، 33 یونین کونسلز دیہی اور 17 شہری ہیں'۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ عمران خان کا بنی گالا گھر کس یونین کونسل میں ہے؟ جس پر بابر اعوان نے آگاہ کیا کہ بنی گالا یونین کونسل 4 میں ہے۔
بابر اعوان نے مزید کہا کہ 'راول ڈیم کے ارد گرد تعمیرات غیر قانونی ہیں'۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آواز اٹھانے والے کا اپنا دامن بھی صاف ہوناچاہیے۔
ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 'بنی گالا تعمیرات اگر قانون کے دائرے میں ہیں توٹھیک ورنہ گرادیں'۔
سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے سی ڈی اے اور متعلقہ یونین کونسل سے عمران خان کے گھر کا اجازت نامہ اور دستاویزات طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس مئی میں سی ڈی اے نے بنی گالا میں عمران خان کےگھر کی تعمیرات کو غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔