Time 14 فروری ، 2018
انٹرٹینمنٹ

قاضی واجد — ایک نایاب اداکار، جو بچھڑ گیا

قاضی واجد کی ایک یادگار تصویر—۔

'ایک دوسرے کا خیال رکھو، مل کر رہو، اس دنیا کو اتنا رنگین چھوڑ کر جاؤ تاکہ آنے والے کہیں کہ جو لوگ یہاں سے گزر گئے ہیں وہ ہمارے لیے کچھ چھوڑ گئے ہیں، ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ کے جانے کے بعد آپ کو برا بھلا کہیں اور بھول جائیں کہ آپ کوئی تھے‘۔

سب کو ایثارو محبت کا پیغام دینے والے بے مثال فنکار قاضی واجد اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی شائستگی سے بھرپور اداکاری اور زندگی کے بارے میں ان کے نظریات سب کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

قاضی واجد کا اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا، وہ 1943 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں سکونت اختیار کی۔انہوں نے 10 برس کی عمر میں اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا اور پہلی مرتبہ بچوں کے پروگرام’ نونہال‘ میں صدانگاری کے جوہر دکھائے۔ دوسرا پروگرام ’قاضی جی کا قاعدہ‘ کیا، جس کے بعد اپنے نام کا قاعدہ بدل لیا کیونکہ جب انہوں نے رتن کمار کی بچوں کی فلم ’بیداری‘ کی تو ٹائٹل کے لیے ان کے طویل نام کو مختصر کیا گیا اور اس طرح وہ قاضی واجد کے نام سے پہچانے جانے لگے۔

قاضی واجد نے ریڈیو پروگرامز کے آغاز سے ہی سب کو اپنا ایسا اسیر کیا کہ اس زمانے میں لوگ ڈاک کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔بچپن کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے دور رہنے والے قاضی واجد کے اندر وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک ذہین اور اچھے انسان میں ہوتی ہیں۔وہ 25 برس تک ریڈیو سے منسلک رہے اور اپنی شاندار صدانگاری سے سب کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔

قاضی واجد سادہ اور سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے، وہ ہمیشہ سب سے مختلف کام کرنے کے خواہشمند رہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ریڈیو میں عمدہ کارکردگی دکھانے کے بعد 1965 میں انہوں نے تھیٹر میں قدم رکھا اور کراچی سے لاہور روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے خواجہ معین الدین کے مشہور ڈرامے’ تعلیم بالغاں‘، ’وادی کشمیر‘، ’مرزا غالب بندر روڈ‘ اور دیگر میں کام کیا ۔قاضی واجد اسٹیج پر ایسے جلوے بکھیرتے تھے کے مکالموں کے درمیان ہی لوگ داد دینا شروع کردیتے تھے۔

قاضی واجد کو 1967 میں ٹی وی سے پیشکش ہوئی اور یہیں سے ان کے کیریئر کو صحیح معنوں میں عروج ملا۔ ان کا ٹی وی کے لیے پہلا ڈرامہ پروڈیوسر عشرت انصاری کا’ ایک ہی راستہ ‘تھا، جس میں انہوں نے منفی کردار نبھایا۔ قاضی واجد نے یوں تو مزاحیہ اور سنجیدہ کردار بھی کیے لیکن انہیں منفی کردار کرنا زیادہ پسند تھا۔

1969 میں نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’خدا کی بستی‘ نے قاضی واجد کو کامیابی اور شہرت کی نئی بلندیوں تک پہنچایا اور 'راجا' کے کردار نے انہیں ایک نئی پہچان دی۔اس ڈرامے کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ جب یہ نشر ہوتا تھا تو گلی محلوں میں سناٹا چھا جاتا تھا، یہاں تک کے اگر اس دوران کسی کی شادی رکھی جاتی تو ٹی وی کا انتظام کیا جاتا اور شادی کارڈ پر بالخصوص لکھا جاتا کہ ’ٹی وی کا انتظام کیا گیا ہے‘۔

اس ڈرامے کے بعد بھی قاضی واجد نے بے شمار شہرہ آفاق کامیاب ڈرامے کیے، جن میں ’تنہائیاں‘، ’ان کہی‘، ’دھوپ کنارے‘، ’حوا کی بیٹی‘ اور ’چاند گرہن‘ وغیرہ شامل ہیں۔یہ وہ ڈرامے ہیں جن کے معیار کا مقابلہ آج کے ڈرامے بھی نہیں کر سکے۔

قاضی واجد کے ساتھی اداکاروں کا کہنا ہے کہ وہ عکس بندی کے دوران ہمیشہ نرمی سے پیش آتے اور ہر کردار کو تیزی سے سمجھ لیا کرتے تھے۔ قاضی واجد اپنے کام سمیت دوستوں اور احباب کے ساتھ بڑے مخلص تھے اور کہتے تھے کہ میرے کامیاب ڈراموں کی بنیاد ’میں‘ پر نہیں بلکہ ’ہم‘ پر ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قاضی واجد نے اپنے پورے فنی کیریئر میں کبھی ہیرو کا کردار ادا نہیں کیا، وہ ہمیشہ اپنے لیے معاون کردار کو ترجیح دیتے تھے اور انہی کرداروں کو اپنی جاندار اداکاری کے ذریعے امر کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ ان سے ایک ساتھی نے پوچھا کہ آپ تو ٹیلی وژن کے خوش شکل آدمی ہیں تو پھر خواتین آپ کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتیں جس پر انہوں نے بے باکی سے جواب دیا کہ ’اس میں ایک تو خواتین کا قصور ہے اور دوسرا میں نے کبھی ایسا کوئی کردار نہیں کیا، جس سے وہ متوجہ ہوجائیں‘۔

دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنے والے فنکار بہت کم ہوتے ہیں، لیکن قاضی واجد ایسے ہرگز نہ تھے، جب بھی کسی فنکار کا کوئی کام اچھا لگتا، تو باقاعدہ فون کرکے یا اس سے ملاقات کرکے اس کی تعریف کرتے، انہیں ہمیشہ دوسروں میں خوشیاں بانٹ کر خوشی محسوس ہوتی تھی اور ایک عظیم انسان کی یہی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ وہ کہتے تھے، 'فنکار کو عزت امیر کرتی ہے، پیسہ نہیں اور عزت اپنے کام اور اخلاق سے کمائی جاتی ہے'۔

قاضی واجد مزاجاً نرم طبیعت اور سادہ دل تھے اور ان کی شخصیت کا عکس ان کے کرداروں میں بھی جھلکتا تھا۔اگرچہ ان کے کرداروں میں ہمیشہ سادگی نمایاں رہتی تھی لیکن ذاتی زندگی میں وہ خوش لباسی کو پسند کرتے تھے اور گھر کی سجاوٹ پر بھی بھرپور توجہ دیتے تھے۔ وہ سیر و تفریح کے بھی دلدادہ تھے، ان کا پسندیدہ شہر لندن تھا، لیکن  انہیں کراچی میں ہی رہنا پسند تھا کیونکہ وہ یہیں پلے بڑھے تھے۔

قاضی واجد کو ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے 14 اگست 1988 کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے  بھی نوازا، لیکن ان کے نزدیک سب سے بڑا اعزاز 'لوگوں کی پسندیدگی' تھی۔

فروری 2018 کی 11 تاریخ کو قاضی واجد ہم سے بچھڑ گئے، ان کی وفات سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا ایک عہد اختتام پذیر ہوگیا لیکن ان کی بے مثال شخصیت، جاندار اداکاری اور خدادادصلاحیتیں کبھی بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ وہ ایک شاندار انسان اور ایک بے مثال فنکار تھے، ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، جن کا خلاء کبھی پُر نہیں ہوسکتا۔

مزید خبریں :