بلاگ
Time 19 فروری ، 2018

دھماکا بھی سہیون کے دھمال کو روک نہ سکا

16فروری2017 کی شب مغرب کی اذان ختم ہوتے ہی فضا میں دھمال کی تھاپ گونجنے لگی۔ سندھ کے مشہور صوفی، لال شہباز قلندر کے مزار پر دھمال شروع ہوا۔ چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ مریدوں کے بیچ کھڑے ایک اجنبی نے اپنی جیکٹ میں لگا بم پھاڑ دیا اور یوں سہیون شریف میں دہشتگردی کا اتنا غضبناک واقعہ پیش آیا کہ 85 مرد، عورتیں اور بچے اپنی جان کھو بیٹھے اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے۔

ایک سال بعد شہباز قلندر کے مرید اپنے مرشد کے دربار پر واپس آ چکے ہیں۔ اس دفعہ عرس کی تیاری پہلے سے بھی زیادہ احتیاط سے کی گئی۔ تیرویں صدی میں بنے اس مزار پر بلا امتیاز، سب ہی آتے ہیں، خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، مرد یا عورت، غریب یا امیر۔ وہ دربار کے احاطے میں کتھک ڈانسر شیما کرمانی مقبرے کے سنہرے گنبد تلے دھمال میں حصہ لینے کے لیے پہنچے ہیں ۔

شہدادکوٹ کی فردوس کھوکھر بھی مزار پر ایک سال بعد لوٹی ہیں۔ پچھلے سال کی اس کالی رات کو بھی وہ اپنے خاندان سمیت مزار کے احاطے میں موجود تھیں۔ دھماکے میں ان کے دو بیٹے شہید ہو گئے جبکہ فردوس اور ان کی بیٹی زخمی ہو گئیں تھیں۔ فردوس نے جیو ٹی وی کو بتایا کہ ابھی دھمال شروع ہوئے دس منٹ گزرے تھے کہ دھماکا ہو گیا۔ "اس سال میرے شوہر نے مجھے روکا کہ میں وہاں واپس نہ جاؤں جہاں ہمارے بچوں کی جان چلی گئی۔"

گہما گہمی کے باوجود اس سال مزار پر رش کم لگا۔ کورنگی کے علی ظفر بچپن سے مزار پر حاضری دے رہے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے اپنے محلےوالوں کے لیے بس کا انتظام کیا۔ انہوں نے جیو ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ "اب کی بار لوگ اپنے خاندان کو ساتھ نہیں لے کر آنا چاہتے۔ ان کو اب بھی سہیون کے حفاطتی انتظامات پر شک ہے۔"

عرس پر آنے والوں کی تعداد کم ہو یا زیادہ، شیما کرمانی دھمال ضرور کریں گی۔ انہوں نے جیو ٹی وی سے کہا "شہباز قلندر کے مزار پر آنے کے دو مقاصد ہیں، ایک تو یہ کہ مریدوں کو بتایا جا سکے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں اور ہم انہیں نہیں بھولے۔ دوسرا یہ کہ شدت پسندوں تک پیغام پہنچایا جا سکے کہ وہ ہمیں نہ پہلے روک سکے تھے، نہ اب روک سکیں گے۔"

سہیون شریف میں دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ لیکن قانون نافذ اداروں کا یہ ماننا ہے کہ اس واقعہ میں 'حفیظ بروہی' گروپ شامل تھا۔ اس گروہ کو تحریکِ طالبان پاکستان اور لشکرِ جھنگوی کی حما یت حاصل ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سینئر افسر نے بتایا کہ "ماضی میں حفیظ بروہی گروپ نے جیکب آباد اور شکارپور میں شیعہ مسلمانوں اور صوفی روحانی قائدین پر بھی حملے کیے۔"

نومبر 2017 میں پولیس نے سہیون میں دہشتگردی کے الزام میں کشمورکے رہائشی نادر علی جاکھرانی کو گرفتار کیا۔ داعش میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے وہ لشکرِ جھنگوی کا ممبر رہ چکا تھا۔ ڈی آئی جی عامر فاروقی نے اس وقت پریس کو صرف اتنا بتایا کہ جاکھرانی نے خود کش حملہ آور کی نشاندہی کی کہ اس کا نام بابر بروہی تھا اور اس کا تعلق بلوچستان کے علاقے مستونگ سے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے تب سے اب تک کیس میں کچھ خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔  


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔