بلاگ
Time 19 فروری ، 2018

’وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے‘

— فوٹو:فائل

کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی قانون معاشرے کو مکمل طور پر انصاف مہیا نہیں کرسکتا، البتہ قانون کی صحیح تشریح اور اس کا بلاتخصیص نفاذ بڑی حد تک انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر فرد کی انصاف تک رسائی ممکن بنا سکتا ہے۔ 

بدقسمتی یہ ہے کہ معاشرے پر اجارہ داری کی ناقابل شکست عفریت نے صدیوں سے قوانین سے فیضیاب ہونے کے حقوق ’طاقتورعناصر‘ تک محدود کئے رکھے ہیں۔ اجارہ داری کا یہ تسلسل دور جدید میں انصاف کی فراہمی میں امتیازی رویوں کا سب سے بڑا پیش خیمہ ہے لہذا طبقاتی امتیاز انصاف کے عمل میں آج بدترین رکاوٹ ہے۔

پاکستان میں بااثر اور دولت مند افراد پر چلائے جانے والے مقدمات کی ہر داستان، انصاف کی بلا تخصیص فراہمی اور انسانی مساوات کے تمام تر تصورات کا مذاق اڑاتی محسوس ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی مداخلت کے سبب شرجیل میمن جیسے سیاسی طور پر طاقتور اور شاہ رخ جتوئی جیسے دولت مند قیدیوں کو اسپتال سے نکال کر واپس جیل بھیج دیا گیا۔ عدالت نے ان دونوں بااثر افراد کے مستقل اسپتال میں رہنے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت کی جانب سے کی گئی اس پیش رفت کی بدولت اب مستقل یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ان دونوں افراد کو کون سی ایسی بیماری لاحق ہے جو ان کی آزاد زندگی میں انہیں بالکل تنگ نہیں کرتی لیکن قید کے دوران مستقل اسپتال میں رہنے پر مجبور کئے رکھتی ہے۔

ملک کے موجودہ چیف جسٹس سیاسی اور سماجی معاملات میں انتہائی حساس واقع ہوئے ہیں۔ ناانصافی یا قانون کی خلاف ورزی سے متعلق اکثر معاملات میں از خود کارروائی کر جاتے ہیں ۔

گزشتہ دنوں انہوں نے بذات خود کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کا دورہ کیا اور شاہ رخ جتوئی کی صحت سے متعلق تازہ صورتحال کو قریب سے دیکھنے کے لئے ڈاکٹرز اورحکام سے تبادلہ خیال کیا۔

خاص بات یہ کہ شرجیل میمن کو اسی دن بغیر کسی حیل و حجت کے، جناح اسپتال سے واپس جیل بھیج دیا گیا۔ یہ اقدامات اگرچہ برابری کے اصول کے تناظر میں انتہائی اہم اور خوش آئند ہیں، زیر حراست با اثر افراد کو زندگی کی تمام تر آسائشیں مہیا کرنا روز اول سے اس ملک کی پولیس اور انتظامیہ کا وطیرہ رہا ہے۔ شرجیل اور شاہ رخ صرف تازہ مثالیں ہیں۔

جرائم کے مرتکب بااثر سیاست دان، دولت مند و طاقتور افراد اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے دیگر عناصر کا بیماری کے بہانے جیل سے اسپتال منتقل ہوجانا اس ملک میں عام سی بات ہے ۔ اب تو لگتا ہے جیسے غریب اور مظلوم پاکستانیوں نے اس ناانصافی پر احتجاج تو کیا، برا ماننا بھی چھوڑدیا ہے۔

میں نے 1992 میں جنگ گروپ کے انگریزی روزنامے دی نیوز سے اپنی صحافتی زندگی کا سفر شروع کیا توعدالتی کارروائیوں کی رپورٹنگ میرا پہلا اسائنمٹ تھا۔ اگلے کوئی ڈیڑھ برس تک میں نے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ان گنت سیاسی وغیر سیاسی، معروف اور اہم مقدمات کی رپورٹنگ کے دوران بہت کچھ دیکھا اور لکھا۔

لیکن سچ یہ ہے کہ جتنا دیکھا اتنا آج تک لکھ نہیں سکا ہوں۔ نا قابل یقین حد تک بڑی تعداد میں مقدمات کا غیر ضروری التوا، قیدیوں کے نا گفتہ بہ حالات، عدالتی نظام میں جا بجا خلل، جھوٹے مقدمات کا اندراج، جھوٹے اور کرائے کے گواہان، مقدمات میں پھنسے معصوم لوگ، پولیس کا کردار، تحقیقات اور تفتیشی اداروں کی بدحالی اور استغاثہ کے شعبے کی تباہ حالی سے متعلق داستانیں ایک طرف، دولت، سیاست ، عہدے یا مضبوط مالی پس منظر کےسبب طاقتور مجرموں اور ملزمان کو حاصل مراعات کی صورتحال اس وقت بھی یہی تھی، فرق صرف یہ ہے کہ اب میڈیا چند واقعات کا بھانڈہ پھوڑ دیتا ہے۔

دنیا کے دیگر غیر مہذب اور زوال پذیر معاشروں میں بھی شاید اس صدی میں طاقت اور ہٹ دھرمی کے ایسے مظاہرے دیکھنے میں نہ آتے ہوں لیکن افسوس کہ پاکستان میں یہ سب کچھ روز اول سے ہوتا آرہا ہے۔

مزید ستم یہ کہ کبھی کسی فوجی یا منتخب حکمران نے ان مسائل پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ شاید ان تمام حکمرانوں کو خود کسی نہ کسی دن جیل جانے کا خوف طاری تھا اس لئے انہوں نے غیر قانونی مراعات کی اس پر تعیش سہولت کو جاری رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔

اگر کسی نے کوئی قدم اٹھایا بھی تو اس کے پیچھے ذاتی تشہیر یا سیاسی مفادات کا عمل دخل نمایاں طور پر کارفرما رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئے ایک یا دو بار چھوٹے یا بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے بعد ہر زبان پر مکمل خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔ 

ظاہر ہے، اس معاشرے میں کوئی شے دولت اور طاقت سے بڑی نہیں۔ نالائقی اور جہالت اس جرم میں چار چاند لگادیتے ہیں۔

یہ طے ہے کہ پاکستان میں کبھی کسی شخص نے کم حیثیت کے قیدی یا ملزم کو یہ تمام مراعات اور سہولتیں حاصل کرتے نہیں دیکھی ہوں گی۔ حد تو یہ ہے کہ جیلوں اور اسپتالوں میں عیش کرنے والے سیاست دانوں کے ہمدرد کارکن اور جیالے ایک ہی جیسے مقدمات میں، انہی جیلوں میں بند انتہائی مختلف اور کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہوتے ہِیں۔

بدعنوانی کے ایک مقدمے میں ایک معروف سیاست دان کو اپنے اہل خانہ سے جیل اور عدالت کے احاطے میں ملنے کی سہولت کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات بھی حاصل تھیں جب کہ ان کی پارٹی کے مقید کارکنان کے وکیل تک عدالت میں پابندی سے پیش نہیں ہوا کرتے تھے۔

یہ سچ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست دان عموماً اپنی قید کی کہانیاں بڑے فخر اور شوق سے سناتے ہیں۔ در حقیقت اس قید کا زیادہ تر وقت انہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارنے کے بجائے من پسند اسپتال کے شاندار اور کشادہ کمروں میں گزارا ہوتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ قانون کو مطلوب جنرل پرویز مشرف، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، اسحاق ڈار، نہال ہاشمی اورشاہ رخ جتوئی سچ مچ بیمار رہا کرتے ہوں لیکن یہ کون سی بیماری ہے جو ان بااثر لوگوں کو صرف قید کے دوران لاحق ہوتی ہے۔

ان معاملات پر ایک یا دو مقدمات قائم کرنے یا احکامات جاری کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور اس جرم کا ارتکاب باقاعدہ ایک غیر اعلانیہ اور انتہائی پیچیدہ نظام کے تحت کیاجاتا ہے۔

عدالت سے منسلک اہلکار اور جیل میں تعینات حکام سے لیکر بڑے عہدوں پر فائز منتخب اور غیر منتخب سیاست دان اور سرکاری اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کی ملی بھگت کے بغیر یہ سب کچھ نا ممکن ہے۔

شاہ زیب قتل کیس میں سپریم کورٹ نے حال ہی میں ازخود کارروائی کرتے ہوئے ملزم شاہ رخ جتوئی کی بریت کا عدالتی فیصلہ معطل کرنے کے بعد، ملزم کی گرفتاری کا حکم دے کر اسے دوبارہ جیل بھیج دیا تھا۔

مقدمے کے ابتدائی مراحل میں ملزم کے طاقتور خاندان کے زیر اثر پولیس مقدمہ درج کرنے میں دانستہ سستی سے کام لیتی رہی لیکن سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد آخر کار مقدمہ درج ہوا اور دیر سویر بیرون ملک ملزم کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔

سزا سنائے جانے تک اس مقدمے کے دوران طاقت اور ہٹ دھرمی کے مظاہرے پوری قوم نے میڈیا پر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ سزا کے بعد ایک روز خبر آئی کہ مقتول کے خاندان سے رازی نامے کے تحت سزا معطل ہونے پر مقدمہ دوبارہ ماتحت عدالت بھجوا دیا گیا لہذا ملزم ضمانت پررہا ہوگیا۔

گزشتہ دنوں کارروائی کے بعد پولس حکام نے چیف جسٹس کو بتایا کہ شاہ رخ جتوئی کو اسپتال سے واپس جیل منتقل کردیا گیا ہے لیکن با اثرقیدیوں کی پر اسرار داستانیں ایسے سادہ بیانات پر انجام پذیر نہیں ہوتیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں قانون سازی اور شفاف و مستقل تحقیقات کے بغیر بہتری کی ضمانت دینا ناممکن ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ قانون کا اچھا یا برا ہونا فیصلہ کن نہیں ہوتا۔ بہت سے معاشرے فرسودہ قوانین کے نفاذ کے باوجود بہتر طور پر چلتے ہی رہے ہیں۔ ان کے خیال میں مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں کوئی قانون معاشرے کے ایک شہری پر لاگو ہو، اور اسی معاشرے کا کوئی دوسرا بااثر شخص اس قانون سے مکمل یا جزوی طور پر آزاد ہو۔

یہ سچ ہے کہ ریاست دولت، ضمیر اور وسائل کے بغیر تو چل سکتی ہی لیکن عدل اور مساوات کے بغیر نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔