22 فروری ، 2018
کراچی: سندھ پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 16 ملزمان کی گرفتاری کے لئے تمام اداروں سے مدد طلب کرلی۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے وفاقی وزارت داخلہ، تمام صوبائی سیکرٹری داخلہ اور چاروں صوبوں سمیت کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئی جیز کو خطوط لکھے گئے ہیں۔
سندھ پولیس کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، فرنٹئیر کور (ایف سی) اور دیگر ایجنیسوں سے بھی مدد طلب کی گئی ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں بھی ڈالنے کے لیے ایف آئی اےکو خط لکھ دیا گیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر تمام متعلقہ محکموں کو ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے کا کہا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 16 فروری کو نقیب اللہ محسود قتل پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ راؤ انوار جہاں بھی ہوگا اسے ڈھونڈ نکالیں گے، پہلی ترجیح اس کی حاضری ہے۔
سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو راؤ انوار کے تمام اکاؤنٹس منجمد کرنے سمیت حساس اداروں کو ملزم کی گرفتاری میں سہولت فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟
13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔
راؤ انوار کو ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے معطل کردیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے جارہے ہیں البتہ اب تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔