02 مارچ ، 2018
3 مارچ کو پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ آف پاکستان 50 فیصد ارکان کا چناؤ کرے گی۔ اس روز سینیٹ کے 52 سینیٹرز اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجائیں گے۔
ان میں 33 جنرل نشستیں ہیں، جن کے لیے پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخواہ، اسلام آباد اور فاٹا کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ووٹ دیں گے جبکہ بقیہ نشستیں خواتین، علماء، ٹیکنوکریٹ اور اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیوں کہ کسی بھی بل کو قانون بننے کے لیے سینیٹ سے پاس ہونا ضروری ہے۔ جنرل نشستوں کو پُر کرنے کے لیے سب ہی سیاسی جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں جبکہ کچھ آزاد امیدوار بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے جنرل نشستوں کے لیے صرف مرد امیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں ماسوائے ایک خاتون امیدوار کنول شوزاب، جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ہے۔
36 سالہ کنول کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور انہیں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد کی جنرل نشست سے امیدوار نامزد کیا ہے۔
1997 میں کنول شوزاب صرف 15 سال کی عمر میں پی ٹی آئی کی رکن بنیں اور آج وہ شمالی پنجاب میں خواتین ونگ کی صدر ہیں۔
کنول کہتی ہیں کہ یہ سب اچانک ہوا۔ چند ہفتے پہلے ان کو رات گئے ایک فون آیا۔ ان کے خاوند نے پوچھا کہ اتنی رات گئے کس کا فون ہے؟ ابھی وہ جواب دینے ہی والی تھیں کہ دوسرا فون آ گیا اور پھر تیسرا۔ فون آنے کا سلسلہ تھما تو کنول نے انہیں بتایا کہ ان کو پی ٹی آئی کی جانب سے سینیٹ کی نشست کی پیشکش ہوئی ہے۔
کنول کے گھر والے پہلے تو یہ سمجھتے رہے کہ شاید کوئی ان سے مذاق کر رہا ہے، لیکن تین سینئر پارٹی رہنما فون کر چکے تھے تو اس خبر کو آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا تھا اور بلآخر یہ خبر سچ ثابت ہوئی۔
کنول نے پولیٹیکل سائنس میں ایم فل کیا ہے اور انہیں اس تعلیمی پس منظر اور خواتین کے لیے کام کرنے پر ٹکٹ کا حقدار سمجھا گیا۔
کنول شوزاب کا کہنا ہے، 'سینیٹ کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس کروڑوں روپے نہیں ہیں تو آپ سینیٹر نہیں بن سکتے، اس لیے مجھے فخر ہے کہ مجھے پارٹی ٹکٹ ملا ہے'۔
سینیٹ میں پارٹی ٹکٹ مرد حضرات کو دے کر خواتین کو نظر انداز کیا جانا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اس حوالے سے کنول کا کہنا تھا، 'امید ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے خواتین کی حوصلہ افزائی ہوگی'۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواتین کی تعداد 48 فیصد سے کچھ زیادہ ہے، لیکن دونوں ایوانوں میں ان کی نمائندگی اس تناسب سے بہت کم ہے۔
'عورت فاؤنڈیشن' کی رپورٹ کے مطابق 2013 میں ایوان بالا کی 104 نشستوں میں سے صرف 17 خواتین سینیٹر تھیں۔ 2015 میں سینیٹ کی 50 فیصد نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں صرف ایک خاتون امیدوار کو جنرل نشست پر منتخب کیا گیا اور وہ تھیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی شیری رحمٰن۔
خواتین کو متناسب نمائندگی نہ ملنے کی وجہ سے سینیٹ میں مردوں کی اکثریت رہی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدوں پر بھی مرد ہی براجمان رہے ہیں۔
کنول شوزاب کہتی ہیں کہ مخصوص نشستوں پر صرف مردوں کو ٹکٹ ملنا اس امتیازی سلوک کا واضح ثبوت ہے۔ بقول کنول ان کا مصمم ارادہ تھا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں جنرل نشست پر حصہ لیں گی اور اس خواہش کا اظہار انہوں نے پارٹی قائدین سے بھی کیا تھا جس کے بعد ان کو یہ ٹکٹ دیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ایوانِ زیریں یا قومی اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب کافی بہتر ہے۔ 342 ممبران میں سے خواتین ارکان کی تعداد 71 ہے، ان میں سے 10 خواتین جنرل نشستوں پر انتخاب جیت کر منتخب ہوئی ہیں، جبکہ 60 مخصوص نشستوں پر ہیں اور ایک خاتون رکن اقلیتی نشست پر منتخب ہوئی ہیں۔
اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشست کے لیے قومی اسمبلی کے ارکان ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، جس میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے اور کنول کا سیٹ جیت جانا مشکل ہے لیکن وہ انتخاب میں حصہ لینے کو بھی اپنی جیت تصور کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا، 'میں ایک طرح سے جیت ہی گئی ہوں، اب لوگوں کو یہ علم تو ہو گیا ہے کہ بھاری بینک بیلنس کے بغیر بھی سینیٹ انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے'۔