Time 08 مارچ ، 2018
پاکستان

واجد ضیاء کٹہرے میں: احتساب عدالت میں کیا ہوا؟

آج احتساب عدالت کے مناظر یکسر مختلف تھے۔ ٹرائل میں یہ پہلا ایسا موقع تھا کہ احتساب عدالت کے جج نے خود ہی عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کردیا۔

اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی کی باربار عدالتی کاروائی میں مداخلت بنی۔

چھ گھنٹے کی طویل سماعت کے بعد غصے سے اپنی نشست سےاٹھتے ہوئے جج محمد بشیر نے اپنا قلم اور ہاتھ میں پکڑے نوٹس زور سے اپنی میز پر دے مارے اور کہا کہ ایسے ٹرائل نہیں چلائے جاتے۔

شریف خاندان کے خلاف اثاثہ جات ریفرنسز کے اہم گواہ واجد ضیاء کے آنے سے قبل ہی سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ واپس روانہ ہوچکے تھے۔

واجد ضیاء کے بیان قلمبند کرانے کے دوران نیب پراسیکیوٹر جج کی ہدایات کے باوجود مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کے اعتراض پر معترض ہوجاتے۔

نیب کے دیگر پراسیکیوٹرز نے کوشش کی معزز جج کی ناراضی ختم کی جاسکے لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکے۔

ان کی معزز جج نے سنی اور نہ ہی ان کے اپنے ساتھی پراسیکیوٹر نے ان کی بات پر کوئی دھیان دیا۔

پراسیکیوٹرافضل قریشی نے بھی معزز جج کو منانے کی اپنی ایک ناکام کوشش کی۔ احتساب عدالت کے جج سے معذرت کرتے ہوئے استدعا کی کہ کاروائی کو آگے بڑھایا جائے۔ جج نے جاتے ہوئے صرف یہ کہا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے اب جمعرات کو سب پیش ہوجائیں۔

آج سماعت کے دوران بھی جے آئی ٹی رپورٹ پر مسلسل سوالات اٹھتے رہے۔

واجد ضیاء پراسیکیوشن ٹیم کے ساتھ جج محمد بشیر کے دائیں طرف کٹہرے میں کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے استدعا کی کہ ایک ساتھ ان کی دس جلدوں پر مشتمل رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنادیا جائے۔

مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ مکمل رپورٹ کو عدالتی ریکارڈر کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ رپورٹ کی ہر جلد میں تجزیاتی صفحات بھی شامل کیے گئے ہیں جو جے آئی ٹی کا دائرہ اختیار نہ تھا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس رپورٹ کو بہت اہم قرار دیا ہوا ہے اورنیب کے ریفرنسز کا انحصار اس رپورٹ پر ہی ہے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ اس رپورٹ کے کچھ حصوں کو نظر انداز کر دیا جائے؟

مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ عدالت میں قانون کے مطابق یہ رپورٹ جمع کی جا سکتی ہے اور اس پرجائز اعتراض بھی لگایا جاسکتا ہے۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز نے جج محمد بشیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ تفتیشی ایجنسی کے بیان کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟ اعلی عدالتوں کے اس حوالے سے فیصلے بھی موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کی 2011 کے ایک ایسے ہی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے امجد پرویز نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عدالت کے سامنے جو گواہ اور ملزم بھی نہ بنایا گیا ہو اس کے بیان پر کاروائی عمل میں لائی جائے۔

واجد ضیاء نے جب شہباز شریف اور طارق شفیع سے متعلق تجزیہ دیا کہ بیان پرنام شہباز شریف کا ہے جبکہ دستخط شہبارشریف کے ہیں۔ دونوں سے پوچھا تو وہ مطمئن نہ کرسکے۔ اس پرامجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ یہ سنی سنائی باتیں ہیں ان کو عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

احتساب عدالت کے جج نے سماعت میں پندرہ منٹ کا وقفہ کیا اور پھر فیصلہ سنایا کہ فی الحال مکمل رپورٹ کو ایک ساتھ ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ واجد ضیاء کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنا بیان ایون فیلڈ کی حد تک قلمبند کرائیں اور اس سے متعلق ہی مواد ریکارڈ پر لے کر آئیں۔

واجد ضیاء نے شکایت کی کہ اس طرح علیحدہ دستاویزات جمع کراتے ہوئے بہت وقت لگ جائے گا۔ عدالت نے واجد ضیاء کی اس خواہش کے برعکس کاروائی جاری رکھی۔

واجد ضیاء کٹہرے میں کھڑے کبھی عینک پہن لیتے اور کبھی ہاتھ میں تھامی جے آئی ٹی رپورٹ کے صفحات کھنگالتے کمرہ عدالت کے چاروں اطراف نظریں دوڑاتے نظر آئے۔ ان کی ساتھ ہی تین اسٹیل کے صندوقوں میں جے آئی ٹی رپورٹ کی دس جلدوں کو رکھا گیا تھا۔ ہر پیشی پر واجد ضیاء یہ ریکارڈ سپریم کورٹ سے لے کر آتے ہیں اور سماعت مکمل ہونے کے بعد واپس رجسٹرار سپریم کورٹ کو واپس کر کے جاتے ہیں۔

عدالتی کاروائی میں وقفے کی صورت میں واجد ضیاء کا اسپیشل سیکیورٹی عملہ عدالت کے اندر داخل ہو کر انھیں اپنی تحویل میں باہر لے کر آجاتا۔ وہ کمرہ عدالت کے سامنے کمرے کے عقبی دروازے سے عدالت کے عقبی حصے میں کچھ وقت آرام کرلیتے۔

واجد ضیاء کے بیان کے دوران کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے علاوہ کوئی بھی موجود نہیں ہوتا لیکن پولیس اہلکار صحافیوں کو کمرہ عدالت میں آنے سے یہ کہہ کر منع کر دیتے کہ جج نےحکم دے رکھا ہے کہ اہم گواہ کا بیان جاری ہے اور دروازہ بار بار کھلنے سے عدالتی کاروائی میں خلل واقع ہوجاتا ہے۔ صحافیوں کو پولیس اہلکاروں نے باوزوں سے پکڑ کر اجازت تلاشی سے مشروط کر رکھی ہے۔

کمرہ عدالت کے باہر نوٹس چسپاں ہے کہ موبائل فون کمرہ عدالت میں لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم اس نوٹس کا اطلاق جج، وکلاء، وزراء، پولیس آفیسرز، خاص مہمان افراد اور عدالتی عملہ پر نہیں ہوپاتا۔ ایک الگ فہرست مرتب کی جاسکتی ہے کہ کب کس کا موبائل عدالتی کاروائی کے دوران رنگ رنگ کی ٹونز کے ساتھ بج چکا ہے ۔

لیکن موبائل فون اگر بغیر تلاشی کے کمرہ عدالت میں آئے کسی صحافی کا ہو تو پھر اسے کمرہ عدالت سے باہر نکلنا لازم ہو جاتا۔ کسی بھی پیشی پرکمرہ عدالت میں سیکورٹی کے نام پر بیٹھے افراد کی بھی تعداد کسی صورت درجن سے کم نہیں ہوتی۔

مزید خبریں :