12 مارچ ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کا جواب غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 26 مارچ کی تاریخ مقرر کردی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے نہال ہاشمی کے خلاف کیس سماعت کی۔
سماعت کے دوران نہال ہاشمی نے عدالت عظمیٰ میں اپنا جواب جمع کروایا، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ انہوں نے عدالت کے بارے میں ایسے الفاظ نہیں بولے۔
نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ 'قرآن پاک بھی عدل کرنے کا حکم دیتا ہے، میں عدالت کے لیے جیل گیا اور عدلیہ کے لیے اپنی جان دے دوں گا'۔
نہال ہاشمی نے کہا کہ 'کیا مجھے سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے؟سینیٹر شپ چلی گئی، اب میرے پاس کیا بچا ہے؟'
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 'آپ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو بدنام کر رہے ہیں'۔
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے نہال ہاشمی کا جواب غیر تسلی بخش قرار دے دیا اور ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 26 مارچ کی تاریخ مقرر کردی۔
بعدازاں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ سینیٹر نہال ہاشمی نے گزشتہ برس کراچی میں ایک عدلیہ مخالف تقریر کی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
کیس کی سماعت کے بعد رواں برس یکم فروری کو سپریم کورٹ نے سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنادی، جس کے بعد وہ 5 سال کے لیے نااہل ہوگئے تھے۔
تاہم 28 فروری کو اڈیالہ جیل سے رہائی پانے کے بعد نہال ہاشمی نے اپنی تقریر میں دوبارہ عدلیہ پر تنقید کی، جس پر عدالت نے انہیں دوبارہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔
مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، نہال ہاشمی
سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ انہیں توہین عدالت پر سزا دی گئی اور عدالت کی ترغیب پر انہوں نے معافی بھی مانگی۔
نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ 'میں عدلیہ کی عزت کے لیے جیل جاتا ہوں، میں نے کسی جج کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کی، وہ سب قیدیوں کی زبان تھی، میں نے کچھ نہیں کہا'۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، میری معافی کو قبول کیا جانا چاہیے'۔