15 مارچ ، 2018
کچھ مضامین لکھاری کے ذہن میں الجھ کر کہیں کھو جاتے ہیں۔ موضوع اور تحقیقی مواد کی دستیابی کے باوجود تحریر کبھی کبھی نا مکمل حالت میں ذہن کے کسی دھندلے و نیم فعال گوشے میں موجود ’’ناکام مضامین‘‘ کی فہرست میں شامل ہوجاتی ہے۔
حال ہی میں ایسے ہی ایک نا پسندیدہ تجربے سے گزرا تو سوچا کہ کیوں نہ اِس قصّے کو کسی نئے مضمون کا موضوع بنالیا جائے، لہذا یہ انوکھی سی تحریر پیش خدمت ہے۔
جنرل ضیاالحق کے دور میں بالی وڈ کے کسی فنکار کا پاکستان ٹیلیویژن (پی ٹی وی ) پر پرفارم کرتے نظر آنا ناممکن سی بات تھی، لیکن شاید یہ سال 1987 تھا جب پاکستانیوں نے قومی نشریاتی رابطے پر لتا منگیشکر کو ایک خوبصورت گیت گاتے سنا اور دیکھا۔ اِس انوکھی پیش رفت پر ہر شخص حیران تھا۔ یہ گیت دراصل سارک کانفرنس کے دوران سارک آڈیو وژول ایکسچینج کے تحت پی ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا۔
آڈیو وژول ایکسچینج کا سلسلہ اگرچہ آگے نہ بڑھ سکا لیکن مجھے اس گیت کے ابتدائی بول، ’’میں کیوَل (صرف) تمھارے لیے گا رہی ہوں‘‘ اور دھن اچھی طرح یاد ہوگئی۔
اِس واقعے کے چند برسوں بعد کشور کمار کا فلم ’درد‘ کے لیے گایا ہوا گیت ’’ایسی حسین چاندنی پہلے کبھی نہ تھی‘‘ غور سے سنا تو پی ٹی وی پر نشر کیا گیا لتا جی کا وہی گیت یاد آگیا۔ یقیناً دونوں گیتوں میں کوئی بات مشترک ضرور تھی۔ مشاہدے کی تصدیق کے لئے لتا جی کاپی ٹی وی والا گیت دوبارہ سننا چاہتا تھا لیکن یہ گیت کہیں دستیاب نہیں تھا۔ پھر مدّت گزر گئی اور اس عرصے میں مجھے ہندوستانی موسیقار خیام کی ترتیب کردہ بہت سی دھنیں لتاجی کے مذکورہ گیت جیسی محسوس ہونے لگیں۔ خیام کے اِن گیتوں میں فلم کبھی کبھی کا ’کبھی کبھی میرے دل میں‘، فلم رضیہ سلطان کا ’جلتا ہے بدن‘، فلم تھوڑی سی بیوفائی کا ’آنکھوں میں ہم نے‘، فلم آخری خط کا ’بہارو میرا جیون بھی ‘، فلم رضیہ سلطان کا ’آئی زنجیر جی کی جھنکار‘ کے علاوہ دیگر گیت شامل ہیں۔ 90 سالہ خیام کا اصل نام ظہور ہاشمی ہے اور ان کا آبائی تعلق لاہور سے ہے۔
میرے اس مشاہدے پر کسی کا کہنا تھا کہ سُروں کی ترتیب ملتی جلتی ہوسکتی ہے، کسی نے کہا کہ یہ زیادہ تر گیت ایک ہی راگ پر بنے ہوئے ہیں، کسی نے کہا کہ اِن تمام دُھنوں کا میوزک ارینجر ایک ہو سکتا ہے، کسی کا خیال تھا کہ ریکارڈنگ اسٹوڈیوز یا ان تمام گیتوں کا ریکارڈسٹ بھی ایک ہو سکتا ہے۔ کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ میرا خیال سراسر غلط ہے ! بہرحال، مجھے سب سے زیادہ مماثلت لتا جی کے پی ٹی وی والے گیت اور کشور دا کے فلم’ درد‘ والے گانے میں ہی محسوس ہوا کرتی تھی۔
کچھ عرصے قبل مجھے اچانک لتا جی کا پی ٹی وی والا گیت ’’میں کیوَل تمہارے لئے‘‘ یو ٹیوب پر مل گیا۔ یہ گیت بار بار سنا اور پھر کافی دیر تک کشور دا کے مذکورہ گیت سے اِس کا موازنہ کرتا رہا۔ لتا جی کا پی ٹی وی والا گیت اِن کے چھوٹے بھائی پنڈت ہردھیاناتھ منگیشکر اور کشور دا کا گیت خیام نے ترتیب دیا تھا! سروں کی ترتیب، اتار چرھاؤ اور پس منظر میں وائلنز (violins) کے کھرچ (Bass) میں بجنے کا انداز مجھے حیرت انگیز طور پر ایک جیسا لگتا تھا لیکن یہ الجھن سلجھ نہ سکی!
ایک دن فلم ’مشعل‘ کا ذکر ہوا تو انیل کپور پر فلمایا ہوا کشور دا کا گیت ’لئے سپنے نگاہوں میں‘ انٹرنیٹ پر سن لیا۔ پتہ چلا کہ اس گانے کے موسیقار بھی پنڈت ہردھیاناتھ جی ہیں اور پھر یہ بھی محسوس کیا کہ یہ گانا فلم ’ترشول‘ کے لئے خیام صاحب ہی کے تیارہ کردہ گیت ’گاپوجی گاپوجی گم گم‘ سے ملتا جلتا ہے۔ میری اس رائے سے اگرچہ کسی نے اتفاق نہیں کیا لیکن مماثلت کا یہ احساس قائم رہا یعنی خیام صاحب اور ہردیاناتھ جی کے گیتوں میں حیرت انگیز مماثلت کی یہ دوسری مثال تھی۔
مجھے یقین ہو چلا تھا کہ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ دونوں موسیقاروں کی دھنوں میں یقیناً کوئی غیر معمولی مماثلت ہے ورنہ یہ احساس بار بار نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر ایک بار فلم ’مشعل‘ ہی میں پنڈت جی ایک اور گیت ’’مجھے تم یاد کرنا اور مجھ کو یاد آنا تم‘‘ سن کر میرے ذہن میں خود بخود خیام صاحب کا ’’یہ ملاقات اک بہانہ ہے‘‘ گونجنا شروع ہوگیا، یقیناً یہ بھی اتفاق نہیں تھا!
پھر ایک بار محسوس ہوا کہ فلم ’دھنوان‘ کے لئے پنڈت جی کا ترتیب کردہ گیت ’’یہ آنکھیں دیکھ کر‘‘ بھی خود بہ خود خیام صاحب کے چند گیتوں کی یاد دلاتا ہے، لیکن وجہ اب بھی معمہ بنی رہی۔ لہذا فیصلہ کیا کہ پنڈت ہردیاناتھ منگیشکر جی اور خیام صاحب سے رابطہ کرکے براہ راست اِن کی رائے لی جائے۔
میں نے پہلے پنڈت جی کا موبائل نمبر حاصل کیا ، اُنہیں فون ملایا اور پھر اُن سے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ 80 سالہ پنڈت جی نے غور سے میری بات سن کر کہا کہ اِس سے پہلے کبھی کسی نے ایسا سوال نہیں پوچھا۔ تھوڑا سٹپٹانے کے بعد میں نے جسارت کرکے پوچھ ہی لیا کہ کیا میوزک ارینجرز، اسٹوڈیوز یا سازندے (instrumentalists) ایک ہونے کے سبب ایسا ہو سکتا ہے؟ میری یہ بات یقیناً ان کو پسند نہیں آئی، کہنے لگے کہ ’’خیام کی دھنوں سے مماثلت محض اتفاق ہوسکتا ہے‘‘، گفتگو چند لمحے اور جاری رہی لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا۔
پھر یہ بھی خیال آیا کہ یہ دونوں موسیقار حضرات سوچ سکتے ہیں کہ میں ان پر نقالی کا الزام لگا رہا ہوں۔ بہرحال پنڈت جی سے بات کرکے تیر کمان سے نکل چکا تھا۔میں نے پھر خدا کا نام لے کر خیام صاحب کا حاصل کردہ نمبر ڈائل کیا۔ ایک خاتون نے فون اٹھایا اور میری درخواست پر فون خیام صاحب کے حوالے کردیا۔ مسئلہ بیان کرتے ہی مجھے محسوس ہوگیا کہ میری بات پر وہ بھی خوش نہیں ہیں۔ فرمانے لگے کہ دنیا میں بہت سی دھنیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوتی ہیں لیکن صحافیوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔
معذرت کرنے پر بولے کہ، ’’آپ میرے بھائی مشتاق ہاشمی کو جانتے ہیں؟‘‘ میں نے ’’ہاں‘‘ میں جواب دیا تو پوچھنے لگے کہ آج کل وہ کہاں ہیں؟ میں نے انہیں ایمانداری سے بتا دیا کہ جب مشتاق ہاشمی پی ٹی وی پر ڈاکٹر امجد پرویز کے ساتھ پرفارم کرتے تھے تو لاہور میں تھے لیکن مجھے اب کوئی تازہ اطلاع نہیں ہے۔ اِس پر خیام صاحب ناراضی میں بولے:’’پاکستان میں رہ کر میرے بھائی مشتاق کے متعلق کچھ نہیں جانتے اور ہندوستان میں مجھ کو جانتے ہو؟‘‘ اگلے لمحے خاتون نے فون لے کر کہا کہ میں اِن سے بات کر سکتا ہوں اور اُن کی کہی ہوئی بات خیام صاحب سے منسوب کی جاسکتی ہے۔
گفتگو ایک بار پھر تھوڑی دیر اور جاری رہی لیکن پھر سوچا کہ اہلیہ کے بیان پر مضمون نہیں بن سکتا تھا، یعنی ہندوستان کے دو چوٹی کے موسیقاروں سے گفتگو کے باوجود بات نہیں بنی۔ لہذا ایک ایسے مضمون کا خواب جو میرے مطابق، برصغیر میں موسیقی اور موسیقی پر تجزیات کی تاریخ بدل سکتا تھا شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
پھر خبر ملی کہ میں اس سلسلے میں لتا منگیشکر سے بھی براہ راست رائے لے سکتا ہوں، میں حیران بھی تھا، اور خوش بھی!
لتا جی کا کہنا تھا کہ ’’ہو سکتا ہے کہ کسی گیت کی دھن، ساز یا ماحول کسی دوسری دھن سے ملتا جلتا ہو، لیکن یہ ممکن نہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک نے، دوسرے موسیقار پر اس حد تک اپنا اثر قائم کرلیا ہو!‘‘ لتا جی کا کہنا تھا کہ پنڈت جی نے زیادہ تر مراٹھی فلموں کے لئے دھنیں تیار کی ہیں جب کہ خیام ہندی اردو فلموں میں اِن کے پسندیدہ سنگیت کاروں میں شامل ہیں۔
’’ہردیا ناتھ فلم سازوں کے دفاتر جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے غیر ضروری میل جول رکھ سکتے ہیں، اسی لئے ہندی فلموں میں ان کا کام محدود ہے۔‘‘
معمہ اگرچہ جوں کا توں رہا لیکن یہ کیا کم ہے کہ اس کے حل کی کوشش میں، میں نے نہ صرف ہندوستان کے ان دو مایہ ناز موسیقاروں سے براہ راست تبادلہ خیال کیا بلکہ مجھے برصغیر میں کوئل کا لقب حاصل کرنے والی سب سے بڑی پلے بیک سنگر لتا منگیشکر سے بھی گفتگو کا موقع ملا!
اُس دن سے آج تک میں سوچتا رہا کہ میرے سوال پر دونوں موسیقاروں کا حوصلہ شکن رد عمل اور لتاجی کی جانب سے اِن کے ردعمل کی بھرپور تائید کے بعد موضوع تو یقیناً بے اثر ہو گیا تھا۔ لیکن اِس وقت یہ تحریر پڑھنے والے خود بتائیں کہ کیا ان دونوں مشہور موسیقاروں اور لتا جی جیسی شخصیت سے گفتگو کے بعد میں صرف یہ سوچ کر خاموش بیٹھا رہتا کہ اصل موضوع پر میری دال نہیں گلی؟ میں اپنے اُن مشاہدوں پر آج بھی قائم ہوں، جن کے تحت مجھے یقین ہے کہ ہردیا ناتھ منگیشکر اور خیام کی دھنوں میں سروں اور راگوں کی ترکیب سے ہٹ کر بھی کئی عناصر حیرت انگیز حد تک ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن اِنہیں بیان کرنا فی الحال میرے بس کی بات نہیں!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔