بلاگ
Time 04 اپریل ، 2018

کیا ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف ملے گا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو—۔فائل فوٹو

آج پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 39 ویں برسی ہے، جنہیں قائدِ عوام‎‎ یعنی عوام کا رہبر بھی کہا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہی اس ملک کو 1973 کا آئین دیا اور جمہوری اداروں کو مضبوط کیا۔ شہید بھٹو خود ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے جاگیر دارانہ نظام کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان کیا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کے درمیان لائے، محنت کشوں اور عوام کو سیاسی شعور دیا۔ پورٹ قاسم، اسٹیل مل اور ملک میں تعلیمی درسگاہوں کا جال بچھایا۔

یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی اور ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنایا۔ شہید ذوالفقار بھٹو ایک عالمی رہنما تھے۔ 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد بھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قائدانہ صلاحیتوں اور انتھک کوششوں کا ہی نتیجہ تھا۔

پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل بین الاقوامی سازش تھی۔ اُس وقت کی سیاسی جماعتوں نے عوامی لیڈر بھٹو کا ساتھ دینے کے بجائے فوجی آمر ضیاء الحق کا ساتھ دے کر ملک کو مسائل کے دلدل میں دھکیلنے میں ڈکٹیٹر ضیاء کا بھرپور ساتھ نبھایا۔ بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد سے لے کر آج تک ملک میں 'پرو بھٹو' اور 'اینٹی بھٹو' سیاست ہو رہی ہے۔

ملک دشمن طاقتیں پاکستان کو مضبوط نہیں دیکھنا چاہتی تھیں، اسی لیے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کروایا گیا جو ایک عالمی سازش تھی۔ عالمی سامراجی قوتوں نے فوجی آمر ضیاء الحق کے توسط سے ایک منتخب وزیراعظم اور 1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر پھانسی کی سزا دلوائی۔ آج تک عوام اس عظیم عوامی رہنما کو نہیں بھول سکے اور نا ہی آج تک شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف ملا۔ جس ملک میں سابق منتخب وزیراعظم کو انصاف نا مل سکے، وہاں ایک عام انسان کس سے انصاف کا تقاضہ کرے؟

ہمارا عدالتی نظام کھوکھلی دیوار کی طرح کمزور ہے۔ لاکھوں بےگناہ پاکستانی جیلوں میں قید ہیں جن کے کیسز کی سماعت تک نہیں ہوتی اور ہزاروں قیدی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں، اب کچھ صورت بنتی معلوم ہوتی ہے اور ہمارے قابل احترام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کے ازخود نوٹسز اور عوامی نوعیت کے کیسز سننے کے بعد امید جاگی ہے کہ شاید زیر التواء کیسز کی بھی شنوائی ہوگی۔

واقعی ظلم کی مختلف اشکال ہیں اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر بھی ایک ظلم ہے۔ معزز عدالتوں کو انصاف کی فوری فراہمی کے لیے بروقت اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہماری ذمہ داری انصاف کرنا ہے جس سے معاشرہ قائم رہتا ہے'،  میں قابل احترام چیف جسٹس کی بات سے سو فیصد متفق ہوں لیکن اب صرف بیان بازی کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں میں انصاف ختم ہوا وہ مٹ گئے۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی روح بھی 39 سال بعد انصاف کی منتظر ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔