بلاگ
Time 27 مارچ ، 2018

قصور کی زینب اور زینبوں کا قصور

قصور کی زینب انصاری کو عمران علی نامی شخص نے زیادتی کے بعد قتل کر دیا تھا— فوٹو فائل

کتنی دیر لگی قصور کی زینب اور مردان کی اسما کو بھلاتے ہوئے؟ کتنے دن گزرے دونوں خوفناک واقعات کو ماضی کی بھولی بھٹکی یاد بنتے ہوئے؟ اب اگر جنسی استحصال کے واقعات زیرِ بحث آتے بھی ہیں تو صرف اس لیے کہ یہ تعین کیا جائے کہ قاتل کی سزا کیا ہو گی۔ 

سرِ عام پھانسی دی جائے یا ٹکرے ٹکرے کر دیا جائے۔ یہ بات تو اب سنائی ہی نہیں دیتی کہ اس قسم کے واقعات کو کیسے روکا جائے۔ جب چائلڈ پورنوگرافی کے سکینڈل سامنے آتے ہیں تو ان پہ ایک دو دن بات ہوتی ہے اور پھر معاملہ معصوم مقتولوں کی برابر والی قبرمیں دبا دیا جاتا ہے۔

شاید لوگ زیادہ پریشان بھی قتل کا لفظ سن کر ہو گئے ہیں ورنہ جنسی زیادتی ہو، پورنوگرافی ہو یا غلط طریقے سے چھونا ہو، اس سب کو تو جیسے معمول کی بات کا درجہ حاصل ہے۔ ہاسٹل اور مدارس میں چھوٹے بچوں کا جنسی استحصال کیے جانے کے واقعات سامنے آتے ہیں تو انہیں سازش کہہ دیا جاتا ہے۔ 

جب بچوں کی حفاظت کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے والدین کا خود یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بیشتر واقعات میں انتہائی قریبی رشتے دار یا وہ افراد جن پہ بہت بھروسہ کیا جائے ملوث ہوتے ہیں لیکن اس پربات کرنے سے تاثر ایسا لیا جاتا ہے کہ یہ روایات یا اقدار کے خلاف بولا جا رہا ہے ورنہ ہمارے ہاں تو بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی روایات کا سہارا لے کر حقیقت سے بھاگنا کہاں کی دانائی ہے۔ 

یہ معاملہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اور جب تک شرم حیا جھجک سے نکل کر ان پر بات نہیں ہو گی تب تک ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ہمارے لیے آرزو کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جبکہ وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں ہے۔

والدین کو خود بھی یہ بات سمجھنا پڑے گی کہ بچے کا خیال رکھنا سب سے پہلے ان کی ذمہ داری ہے۔ چار پانچ سال تک کی عمر میں بچے کو لازمی سمجھانا چاہیے کہ کوئی انہیں پشت پہ، ران پر نہیں چھو سکتا، ہونٹ پہ نہیں چوم سکتا، ہر کسی کے ساتھ ٹافی یا چاکلیٹ وغیرہ لینے نہیں جانا، کوئی بھی ان جگہوں پرچھوئے یا کبھی کپڑے اتارنے کی کوشش کرے تو والدین کو ضرور بتائیں۔ 

خود والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب بچے کسی کے بارے میں ایسی بات کہیں تو اسے سنجیدہ لیں ورنہ یہ مسئلہ بڑھے گا جس کے نقصان دہ قسم کے دیرپا جسمانی و نفسیاتی اثرات ہو سکتے ہیں۔

اگر کسی بچے کے رویے میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے، وہ کسی رشتےدار سے بدکتا ہے، اس کے نام پہ الجھن یا غصے کا اظہار کرتا ہے، سکول یا اکیڈمی جانے سے کترانے لگا ہے تو اس کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے دوستانہ ماحول میں بات کریں تاکہ اگر کچھ ایسا ہو تو بروقت آپ کے علم میں آ سکے۔ اسکول، اکیڈمی، مدرسہ یا کسی دوسرے کے گھر؛ بچے جہاں بھی جاتے ہوں وہاں خود بھی چکر لگاتے رہیں تو کیا برا ہو۔ گھر کے ملازم خواہ ڈرائیور مالی خانساماں یا کوئی بھی ہو کسی پر سو فیصد بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ دنیا، یہ معاشرہ بچوں کے لیے اتنا خوبصورت نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے۔ موضوع سے بھاگنے سے ہم اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کر سکیں گے۔ انٹرنیٹ پہ بہت سی ویڈیوز اور تصاویر ہیں، خود بھی دیکھیں اور ان کی مدد سے بچوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے کوئی انسان آپ کے لیے بے انتہا قابل بھروسہ و قابل احترام ہو لیکن ضروری نہیں کہ وہ آپ کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھے۔

سیکس ایجوکیشن کوئی گمراہ کن تصور نہیں وقت کی ضرورت ہے۔ ہم سوچتے تو ایسا ہی ہیں کہ سب لوگ بچوں کا خیال رکھیں گے، ہمارے بچوں کو اپنے بچوں جیسا سمجھیں گے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ کچھ واقعات میں تو جنسی استحصال کرنے والوں میں والد جیسے رشتے کا نام بھی سامنے آیا۔ ایسے میں کیا کریں؟

بچے کو جھٹلائیں مت، اسے چپ مت کرائیں، بلکہ اگر بچے کچھ شیئر کریں تو ان کی بات پہ یقین کریں، کوئی بھی رشتہ یا کوئی بھی رشتےدار بچوں کے تحفظ سے اہم نہیں ہے۔ کسی بچے کے ساتھ ایسا کچھ ہو تو اسے قصوروار مت سمجھیں نہ ہی بچوں کو الزام دیں۔ قصور کیس میں مجرم سے متعلق جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق مجرم کو بھی بچپن میں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 

معاشرے کے اجتماعی شعور کی پسماندگی کہتی ہے کہ جیسے مجرم کو سزا ملنا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اپنے انفرادی رویے بہتر کرنے ہوں گے ورنہ یہ معاشرہ ہر بچے کے لیے غیر محفوظ رہے گا۔

رامش فاطمہ ڈاکٹر ہیں اور @Ramish28 سے ٹوئیٹ کرتی ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔