05 اپریل ، 2018
کراچی کی مقامی عدالت نے پولیس کے ہاتھوں مقصود قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ شامل کرنے کی منظوری دے دی۔
عدالت کی جانب سے حکم جاری ہوتے ہی چاروں ملزم پولیس اہلکار تفتیشی افسر کی ملی بھگت سے عدالت سے فرار ہوگئے۔
کراچی کے علاقے شارع فیصل پر رواں سال 20 جنوری کو پولیس کے ہاتھوں بے گناہ نوجوان مقصود کے قتل کے مقدمہ نمبر 18/91 کی مقامی عدالت میں سماعت ہوئی۔
پولیس کی جانب سے عدالت میں حتمی چالان جمع کرایا جانا تھا مگر پولیس نے عدالت سے کیس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سیون اے ٹی اے شامل کرنے کی درخواست کی جس پر وکلاء اور پولیس کی جانب سے جرح کی گئی۔
دلائل کے بعد عدالت نے پولیس کی استداء منظور کر لی اور پولیس کو حکم دیا کہ آئندہ 7 دن میں مقدمے میں دفعہ 7 اے ٹی اے کا اضافہ کرکے رپورٹ شواہد کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرائی جائے۔
مدعی اور مقتول ٹیلرماسٹر مقصود کے والد شیرعلی کے وکیل جبران ناصر کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ مقدمے میں نامزد چاروں ملزمان اِس وقت تک قتل کی دفعہ کے تحت عبوری ضمانت پر ہیں، عدالت ملزم پولیس اہلکاروں کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کرے کیونکہ ان کے پاس دہشت گردی کی دفعہ کے تحت ضمانت نہیں ہے۔
عینی شاہد کے مطابق اس دوران جعلی مقابلے میں ملوث ملزم اے ایس آئی طارق خان، کانسٹیبل اکبر خان، عبدالوحید اور شوکت علی دوڑتے ہوئے عدالت سے فرار ہوگئے۔
متاثرہ خاندان کے مطابق ملزمان کو موقع پر موجود ایک وکیل نے کیس میں نامزد پولیس اہلکاروں کو فرار ہونے کا اشارہ کیا اور وہاں موجود ایس ایچ او شارع فیصل علی حسن نے جان بوجھ کر ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی۔
متاثرہ خاندان کے مطابق اس مقدمے میں ملزمان کا وکیل ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کا بیٹا ہے۔ ان کا کہنا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کیس میں نقیب محسود اور انتظار قتل کیس کی طرح ادارے حرکت میں نہیں آرہے اور انصاف کی فراہمی قانونی تقاضوں کے مطابق نہیں ہو رہی ہے۔
دریں اثناء پولیس ذرائع کے مطابق پولیس کی جانب سے تیاری مکمل ہے اور مقدمے میں انسداد دہشتگردی کی دفعہ کی رپورٹ جلد اے ٹی سی کی منتظم عدالت میں پیش کردی جائے گی۔