09 اپریل ، 2018
سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے اور پاک سرزمین پارٹی تیزی سے اپنے اہداف حاصل کر رہی ہے۔
حالیہ کچھ عرصے کے دوران ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان کی پی ایس پی میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے اور صوبے میں بظاہر ارکان اسمبلی اور سیاسی مہروں کی بنیاد پر طاقت کا توازن تبدیلی کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔
خصوصاً شہری علاقوں میں سیاست کی بساط پر مہرے تیزی سے اپنی جگہ تبدیل کر رہے ہیں اور امکان ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں ایم کیو ایم پاکستان اپنے مزید ارکان سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔
پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال، رہنما انیس قائم خانی، رضا ہارون اور دیگر اپنی حکمت عملی کے تحت عوامی اجتماعات اور کارنر میٹنگز میں لوگوں کو قائل کرنے میں مصروف ہیں۔
کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص سمیت کئی شہروں میں متحدہ قومی موومنٹ کے درجنوں رہنماؤں اور عہدیداروں نے پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند روز میں ایک درجن سے زائد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، رہنما اور عہدیدار پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہوجائیں گے۔
ایم کیو ایم کے مرکزی قائدین کے اختلافات کی وجہ سے یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ خصوصاً کراچی میں بلدیاتی سطح پر عوامی مسائل حل نہ ہونے سے عوام میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے اور بلدیاتی ملازمین تنخواہیں نہ ملنے اور کرپشن کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔
دوسری جانب پی ایس پی میں شامل ہونے والے اراکین کو روکنے کے لیے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ خالد مقبول صدیقی اور عامر خان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے یہ بیانات ضرور سامنے آتے ہیں کہ اتحاد برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے، لیکن عملی طور پر ڈیڈ لاک بڑھتا جارہا ہے۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار آئندہ چندروز میں بیرون ملک روانہ ہوجائیں گے، اس حوالے سے کہا یہ جا رہا ہے کہ وہ کسی فیسٹیول میں شرکت کے لیے جارہے ہیں۔
آئندہ عام انتخابات کی تیاری تو شاید ابھی دور ہے لیکن عبوری حکومت میں سندھ میں بننے والے نئے اپوزیشن اتحاد سے ارکان لیے جانے کا امکان ہے، جس میں فنکشنل لیگ، پی ایس پی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں۔
اب یہاں صورتحال کافی واضح ہے کہ عبوری حکومت میں ایم کیو ایم کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوگی، جو یقیناً فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی اور ایم کیو ایم پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔