انصاف کی قیمت ادا کون کرےگا؟

70 سالہ وطن عزیز میں مختلف ادوار کےدوران عوام کو دودھ اور شہد کی نہروں میں نہلانے کا دعویٰ کرنے والے آج تک اپنے سوا کسی عام شخص کی حالت بدلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

ایسے میں جب جمہوریت کا دوسرا ہنگامہ خیز جمہوری دور مکمل ہونے کو ہے، ملک کی دو بڑی جماعتیں اپنے اپنے 5 سالہ اقتدار کی مدت مکمل کرنے کو ہیں تاہم عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندے محض دعووں کے سوا زمینی حقائق تبدیل کرنے میں کسی طور کامیاب نظر نہیں آتے۔

ووٹروں کے نصیب بدل دینے کے ان ہی دعووں کے درمیان خود کو بابا رحمتے قرار دینے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار، سوموٹو نوٹسز و ایکشنز سے متحرک عدلیہ کا نجات دہندہ کے طور پر ایک نیا چہرہ عوام کے سامنےلے آئے ہیں۔

کوئی سمجھےگا کہ انہیں ہیبت اور عظمت کے برگزیدہ ٹھنڈے کمرے سے باہر نکالنے پر کس نے مجبور کیا تو اس کا سادہ سا جواب چیف جسٹس جابجا مقامات پر اپنے خطابات میں خود دے رہے ہیں، کہتے ہیں ‘وہ عوامی چیف جسٹس نہیں بلکہ قوم کےچیف جسٹس ہیں، یہ زندگی اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے ہے، وہ قوم کے لیے کچھ کرنے کا عزم کرچکے ہیں، اگر انہوں نےعوام کےحقوق کے لئے علم بلند کیا تو کیا غلط کیا۔۔؟’

سیاسی زعماء کےخدشات کےجوابات بھی چیف جسٹس آف پاکستان خود دے رہے ہیں، کہتے ہیں ‘ووٹ کی عزت لوگوں کو آئین کے تحت ان کا حق دینا ہے، جس دن قوم نے ساتھ نہ دیا وہ پیچھےہٹ جائیں گے۔’

جمہوریت کو خطرات کے وسوسوں پر بھی کاری ضرب لگاتے ہوئے محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح اعلان کیا ہے کہ ‘یہاں صرف جمہوریت ہی چلے گی، کس کی ہمت ہے مارشل لاء لگائے، ایسا ہوا تو ان سمیت سپریم کورٹ کے17 ججز نہیں ہوں گے۔’

اب ایک سوال عام شہری کے ذہن میں ضرور سر اٹھاتا ہےکہ جمہوری حکومت کےہوتے ہوئے ریاست کے ایک اور اہم ادارے عدلیہ نے سب برائیوں کو ٹھیک کرنے کی بھاری ذمہ داری اپنے سر کیوں لےلی ہے؟

شاید وہ سوچتےہیں کہ وطن عزیز کے کسی ایک حصے میں نہیں بلکہ کم وبیش ہر صوبے، ہر ضلع اور ہر شہر سمیت چھوٹے ٹاونز تک میں صاف پانی تو دور کی بات، پانی کی فراہمی ہی ممکن نہیں ہوپارہی۔

استعمال شدہ پانی کی نکاسی کا موثر نظام تک نہیں جو جلد سے لے کر ہر قسم کی جان لیوا بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ ہر جگہ بڑے چھوٹے اسپتال کا ہونا توکجا، صحت کے بنیادی مراکز تک نہیں، اگرکہیں ہیں تو وہاں ڈاکٹرز ہیں نہ اسٹاف، بستر ہیں نہ ادویات۔

بچوں اور بڑوں کو تعلیم سےبہرہ مند کرنے کے لئے تناسب کےحساب سے تعلیمی ادارے تک نہیں، اگر کسی علاقے میں ہیں تو بنیادی سہولیات نہیں، نظام تعلیم بدحالی کا شکار ہے، نصاب ہے نہ غیرنصابی سرگرمیاں، پرائیوٹ تعلیمی ادارے بہترین منافع بخش بزنس بن چکے ہیں۔ پڑھے لکھوں کے لئے روزگار نہیں تو کم تعلیم یافتہ یا ان پڑھ کے لئے کہاں ،اور جنہیں روزگار مل بھی گیا ہے انہیں خون پسینہ ایک کرنے کے معاوضے کی عدم ادائیگیوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

اقربا پروری کی انتہا یہ ہے کہ چھوٹے سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر من پسندوں کی اجارہ داری نے ملکی نظام کو ذاتی جاگیر میں تبدیل کر رکھا ہے۔ عام آدمی کو تحفظ اور امن دینے کی بات کرنے والے ٹیکس پئیرز پر پلنے والے درجنوں سیکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں عوام سے محفوظ رہتے ہیں۔

ان جیسے کئی اور ہزار ہا مسائل میں گھرے عوام بچارے، بے بسی کا رونا روتے ہیں کیونکہ ان کے لیڈرز بیان بازیوں کےعلاوہ ان زندگیوں کو سہل اور پرسکون بنانا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔

راقم نے ایک گذشتہ کالم میں نشاندہی کی تھی کہ چھوٹی بڑی عدالتوں میں پڑے لاکھوں کیسز مدتوں سے عوام کے جوتے ہی نہیں گِھسا رہے بلکہ ان کی جانیں بھی گھلارہے ہیں ایسے میں انگریز دور کے رائج کردہ نظام کے تحت گرمیوں، سردیوں اور کرسمس کی عدالتی تعطیلات کا کیاجواز؟

شاید اس تحریر کا جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے اس قدر سنجیدگی سے نوٹس لیا کہ اپنی ہفتہ اور اتوار کی تعطیلات بھی ختم کردی ہیں اور صبح و شام عدالتیں لگارہے ہیں تاکہ انصاف کی بروقت فراہمی ممکن ہوسکے۔

تو کیا سارے انصاف کی فراہمی اکیلے چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے؟حقیقت یہ ہےکہ اس پریکٹس کاپیغام اوراثر جب تک نچلی سطح پر بعین نہیں ہوتا حقیقی انصاف کی فراہمی کا نظام قائم نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس صاحب نے بڑا کمال یہ کیا ہے کہ سب بڑوں اور ایرے غیروں کا سیکیورٹی پروٹوکول بند کردیا لیکن انصاف کا تقاضا ہےکہ چیف صاحب کو کے پی اور پنجاب سمیت دیگر صوبوں کے دوروں کے دوران پولیس اور دیگر اداروں کی پھرتیوں کا ازخودنوٹس ضرور لیناچاہئے جو انہیں بلاجواز پروٹوکول دے کر ان کی نیک نامی پر سوال کا سبب بن رہےہیں!

عوام کےلئے باعث کرب ہےکہ ان کے منتخب نمائندے موجودہ متحرک عدالتی نظام پر سوال اٹھارہے ہیں، شاید اس لئے کہ عام آدمی کے مسائل کاحل اور ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانا ان کے فرائض منصبی میں شامل نہیں۔ان کا کام تو محض ایوانوں تک پہنچانا ہے،ایوان کو رونق بخشیں یا نہیں، تن خواہ، ٹی اے ڈی اے، رہائش، گاڑی، پیٹرول، ہوائی جہاز کے مفت ٹکٹ، منرل واٹر، بجلی، ٹیلی فون کی بغیر بل لامحدود سہولیات لینا اور عوام سمیت سرکاری نوکروں چاکروں سے خدمت کرانا ہے۔

یہی وطیرہ ان کےزیر اثر ریاستی مشنیری یعنی بیوروکریسی کا ہےجو اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے ان کو اس راستے پر ڈالتے ہیں۔

عوام تصور کرتےہیں کہ اگر جمہوری قائدین کا ملک میں سب کچھ ٹھیک ہونےکا دعویٰ درست ہے تو یہ چیف جسٹس آف پاکستان کےہنگامی دوروں کے دوران اسپتالوں میں شکوہ کناں تڑپتے مریض اور ان کے لواحقین کون ہیں؟

ان کی گاڑی کو روک کر داد رسی کی التجا کرنے والے کون ہیں؟ تن خواہ نہ ملنے پرعرضیاں لیے نوحہ خواں ملازمین کون ہیں؟ قوم کے معمار تیار کرنے والی یونی ورسٹیوں میں منظور نظر کو عہدے دینے والے کون ہیں؟ پارکوں کو سڑکوں میں تبدیل کرنے والے کون ہیں؟ ملک وقوم کے درد میں گھٹنوں تک ڈوبے اور خدمت کےجذبے سے سرشار دوہری شہریت رکھنے والے بیوروکریٹ کون ہیں؟ مہنیوں نہیں سالہا سال سے انصاف کے حصول کے لئے دربدر ٹھوکریں کھانے والے کون ہیں؟ قوم کے نام پر قومی خزانہ لوٹ کر محلات اور بیرون ملک اثاثے بنانے والے کون ہیں؟ صوبے بھر کی بجائے لاہور کو پیرس اور کے پی میں نیا پاکستان بنانےکےدعویدار کون ہیں؟ ووٹوں کے تقدس کا علم اٹھاکر ووٹروں کی تضحیک کرنے والے کون ہیں؟ عوام کا مال ہڑپ کرکے ان کی خدمت کا دعویٰ کرنے والےکون ہیں؟ شفاف انتخابات کےمطالبے پرڈٹے سینیٹ انتخابات کے سوداگر اوربکاؤ مال کون ہیں؟ اگر کوئی عوامی لیڈران سوالوں کےجواب جانتا ہے توپھر اس کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ عوام سے انصاف کی بھاری قمیت کون ادا کرے گا؟ کیا کوئی تیار ہے اپنے گریبان کی بجائے اپنی تجوریوں میں جھانکنے کےلئے؟ سب حکومت میں ہیں کیا چیف جسٹس آف پاکستان کے ایکٹوازم اور نشاندہیوں کو سنہری موقع سمجھ کر کوئی عوامی مفاد میں پہلا قدم اٹھانے کا حوصلہ کرےگا؟ شاید آسان راستہ یہ ہوگا کہ جمہوریت پسند خود کو غیر محفوظ سمجھنے کی بجائے اپنے غلط فیصلوں کو بر وقت درست کرلیں ۔

کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوششوں کی بجائے اپنی اہلیت ثابت کرنا شروع کردیں۔ مخدوم کی بجائے عوام کےخادم بن جائیں۔چیف جسٹس صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ انہیں تعریفوں کی ضرورت نہیں، وہ جانتے ہیں جس دن کرسی سے اتریں گے انہیں کوئی پہچانےگا بھی نہیں۔

شاید یہ پیغام سیاستدانوں کے لئے زیادہ اہم ہے کیونکہ سیاست دان تو عوامی نمائندے ہوتے ہیں، انہیں ہمیشہ عوام میں رہنا ہوتا ہے، انہیں موجودہ حالات کے چیلنجز کو اپنی آزمائش سمجھنا چاہیے، موجودہ مشکلات کومصیبت کےطور پرطاری کرنےکی بجائے اس کو کچھ بہتر کر گزرنے کا موقع سمجھنا چاہیے۔

جمہوریت کی بقا کے لئے آپس میں لڑنے اور خود کو تقسیم کرنے کی بجائے متحد کرنا چاہیے، اپنے اپنے دامن پر لگے ہر قسم کے داغ کو شفافیت، ایمانداری اور عوامی خدمت کے عزم نو سے دھو ڈالنا چاہیے۔

عوامی انصاف کی قیمت آپ ہی کو ادا کرنا ہوگی ۔یقین کریں اس قوم کا دل بہت بڑا ہےآپ نے ایک مرتبہ کوتاہیوں کا اعتراف کرکے درست سمت میں چلنے کا فیصلہ کرلیا تو کسی دوسرے سے شکوہ شکایت تو دور کی بات، یہ جمہور آپ کو اپنے سر کا تاج بنالیں گے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔