01 مئی ، 2018
کراچی: پاکستان میں بدامنی میں ملوث ملزمان کو پڑوسی ملک افغانستان میں دہشت گردی کی تربیت دینے کا معاملہ یو این او اور متعلقہ فورمز پر اٹھانے فیصلہ کیا گیا ہے۔ سندھ میں گرفتار کیے گئے ایسے 19 ملزمان کی فہرست محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے سندھ حکومت کے توسط سے متعلقہ وفاقی ادارے کو بھیج دی ہے جبکہ دیگر صوبوں سے بھی ایسی رپورٹس طلب کی گئی ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بم دھماکوں، انتہاپسندی اور دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے والے پاکستانی ملزمان کی اصل تعداد تو سیکڑوں میں ہے لیکن پولیس کو دستیاب شواہد سے مرتب کی گئی فہرست سندھ میں گزشتہ 5 سال کے دوران گرفتار کیے گئے کالعدم تنظیموں کے کارندوں اور ان ملزمان کی ہے جنہوں نے مشترکہ تحقیقات کے دوران اقبال جرم کیا اور عدالتوں میں بیانات دیئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اپنی حکمت عملی اور مقامی دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام افغانستان ہر معاملے کا الزام پاکستان یا یہاں کے مذہبی گروپوں پر عائد کردیتا ہے جبکہ پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی اور لاقانونیت کے پیچھے یہی پڑوسی ملک اور اس کے اتحادی ملوث رہے ہیں۔
اس سلسلے میں افغاستان اور اس کے اداروں کی پاکستان میں ہر مداخلت کا جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان رپورٹس اور ڈیٹا کی تیاری اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سال 2013 میں گرفتار کیے گئے محمد عادل عرف عثمان نے تحریک طالبان افغانستان کے بینر تلے افغانستان میں بم بنانے کی تربیت حاصل کی تھی۔ 'غازی فورس' کے نام سے اس گروہ کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سال 2015 میں گرفتار لانڈھی کے رہائشی اور مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ملزم عبدالغفور نے بھی تحریک طالبان کے تحت افغانستان میں مولوی آغا جان گروپ میں رہ کر دہشت گردی کی تربیت حاصل کی۔
پولیس حکام کے مطابق سال 2015 کے دوران گرفتار کیے گئے ایم پی آر کالونی اورنگی ٹاؤن کے رہائشی راز محمد عرف عمر، تاج محمد عرف سلمان، بلوچ گوٹ اورنگی ٹاؤن نمبر 4 کے رہائشی محمد رحیم عرف پہلوان اور ڈیرہ الہ یار بلوچستان کے رہائشی منظور احمد عرف معاویہ عرف اسامہ عارف حبیب اللہ نے بھی افغانستان سے دہشت گردی کی تربیت لینے کا اعتراف کیا ہے۔
سال 2016 میں دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میں گرفتار حیدرآباد لطیف آباد کے رہائشی ڈاکٹر عبدالرقیب، بلال کالونی کورنگی کے رہائشی فہد جاوید عرف فہد ملا عرف موسیب اور شادمان ٹاؤن کراچی کے رہائشی سید محمد مرتضیٰ عرف بے نام عرف ابوہریرہ عرف معاویہ نے بھی افغانستان سے دہشت گردی کی تربیت لینے کا اعتراف کیا ہے۔
ملیر کے رہائشی اور القاعدہ برصغیر گروپ سے تعلق رکھنے والے عبدالباسط رشید کو بھی دو سال قبل گرفتار کیا گیا تھا۔ اس ملزم نے بھی 2008 میں افغانستان میں تربیت لی اور 2010 میں اس مقصد کے لیے افغانستان جاتے ہوئے اسے گرفتار کرلیا گیا۔ ملزم نے 2012 میں القاعدہ کو جوائن کیا اور پھر 2014 میں پھر افغانستان جاکر دہشت گردی کی تربیت حاصل کی۔
پولیس حکام کے مطابق سندھ کے شہر شکارپور کے گوٹھ عبدالخالق پندرانی سے تعلق رکھنے والے بلال احمد عرف سکندر عرف اصغر نے مبینہ طور پر لشکر جھنگوی اور جیش الاسلام کے پلیٹ فارم سے 2009 میں بم بنانے اور دہشت گردی کی تربیت افغانستان جاکر حاصل کی۔ 2009 میں لشکر جھنگوی جوائن کرنے والا یہ ملزم بم بنانے کا ماسٹر تصور کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملزم دہشت گردوں کو مبینہ طور پر دھماکا خیز مواد اور بارود سپلائی کرنے میں بھی ملوث رہا ہے۔ ملزم شکارپور امام بارگاہ بم دھماکے میں بھی ملوث ہے اور دو مرتبہ افغانستان جاچکا ہے۔ 2016 میں گرفتار کیے گئے ملزم 25 فروری 2015کو پیر حیدر شاہ کی درگاہ پر بم دھماکے میں ملوث رہا ہے۔
سال 2016 میں پاکستانی حساس ادارے کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے محمد نعیم عرفان عرف سعید اللہ عرف احمد عرف صدیقی عرف ولید سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ کا رہائشی ہے جو لشکر جھنگوی کے العالمی گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔ ملزم نے ملا منصوری گروپ میں رہتے ہوئے افغانستان سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کی۔ ملزم پاکستان سے غیر قانونی طور پر افغانستان جاکر چالیس دن تک تربیتی امام ابو حنیفہ کیمپ میں رہا۔ ملزم نے جہاد کے نام پر بیکری کے ہندو مالک سے بھتہ وصول کیا اور کوئٹہ میں ہی ایک اور واردات میں ہندو تاجر کے اسٹور میں لوٹ مار کی۔ اس گروہ نے بھتہ نہ دینے پر کوئٹہ میں وائن شاپ پر دستی بم سے حملہ بھی کیا۔ ملزم اور اس کے گروہ نے فرقہ ورانہ دہشتگردی میں درجن سے زائد افراد کو قتل کیا۔
2017 میں گرفتار کیے گئے خلیل احمد عرف جلیل احمد نے لشکر جھنگوی کے پلیٹ فارم سے افغانستان میں بم بنانے اور دہشت گردی کی تربیت حاصل کی۔ ملزم بلوچستان میں 2005 میں درگاہ پر بم دھماکے میں ملوث رہا جس میں کم سے کم 45 افراد جاں بحق جبکہ 70 زخمی ہوئے۔ ملزم اوستہ محمد بلوچستان کا رہائشی اور شکار پور کے گاؤں سندھو یا میں مقیم تھا۔
گزشتہ سال کا گرفتار ملزم محمد وزیر حسین عرف فرحان سندھی مسلم سوسائٹی کراچی کا رہائشی ہے جو نعیم بخاری گروپ کے پلیٹ فارم سے افغانستان میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرچکا ہے۔
ایک اور ملزم تنویر احمد سال 2017 میں گرفتار ہوا جو القاعدہ کے حقانی گروپ کے تحت افغانستان میں تربیت کے بعد دہشتگردی میں بھی ملوث رہا۔
امارات اسلامیہ افغانستان سے تعلق رکھنے والا بلدیہ ٹاؤن کراچی کا ملزم عبدالجبار عرف سلام عرف لغاری بھی افغانستان میں تربیت یافتہ ہے جو کراچی میں دہشت گردی کے علاوہ بم دھماکوں اور دستی بم حملوں میں ملوث رہا۔
ملزم عبدالحمید بروہی جند الفدا گروپ سے تعلق رکھتا ہے جسے جامشورو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ شکار پور کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والا یہ ملزم بھی افغانستان سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کرچکا ہے۔
ایک ملزم جنید احمد کو رواں سال سی ٹی ڈی سندھ نے گرفتار کیا ہے جو کیماڑی کا رہائشی اور پشاور سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ملزم افغانستان کے علاقے غزنی سے دہشت گردی کی تربیت لے چکا ہے۔