پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: کچھ عجیب اور غیرمعمولی ہی توقع کریں!

— فائل فوٹو

اگر آپ بھی میری طرح ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس کی بھرمار سے پریشان اور ٹیسٹ کرکٹ دیکھنے کے لیے بے قرار ہیں تو براہ مہربانی اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کریں۔

پی ایس ایل کی چمک ماند پڑگئی جبکہ آئی پی ایل اصلی کرکٹ کو چاہنے والوں کی کھیل میں دلچپسی ختم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

تاہم کسی نئی ٹیسٹ سیریز سے قبل اس خوبصورت کھیل کے لیے ایک نئی امید جاگ اٹھتی ہے۔

حالیہ عرصے میں جب بھی پاکستان اور انگلینڈ مدمقابل آئے ہیں کچھ نہ کچھ عجیب اور غیرمعمولی ضرور ہوا ہے اور ایسا انگلینڈ کی وجہ سے نہیں ہمیشہ پاکستان کی وجہ سے ہی ہوا۔

آپ کو اچھا لگے یا برا، انگلش پریس اور شائقین ابھی بھی بدنام زمانہ 2010 کی سیریز کو بھولے نہیں ہیں۔ وہ نو بالز، اسپاٹ فکسنگ اور کھلاڑیوں کی جانب سے بکیز کو اپنی جیکٹس دینا۔۔۔ انہیں سب یاد ہے اور یہ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔

اس طرح کی سرخیوں کے لیے اپنا ذہن پہلے سے ہی بنالیں ’سابق فکسر عامر نے بوتل کے ڈھکن کی مدد سے رورس سوئنگ کرکے پاکستان کو فتح دلوادی‘۔

2012 کی سیریز متحدہ عرب امارت کے ریگستانوں میں کھیلی گئی جس کے دوران سعید اجمل نے متعدد انگلش بلے بازوں کا شکار کیا۔ دو سال بعد ان پر گیند کو تھرو کرنے کے الزام لگا اور ان پر پابندی عائد کردی گئی اور سعید پھر کبھی کریئر کی ان اونچائیوں تک نہ پہنچ پائے جہاں وہ دنیا کے بہترین اسپن بولر قرار پائے تھے۔ انگلینڈ اس دلدل سے 0-3 کی شکست کے بعد ہی نکل پایا اور پاکستان نے اپنے گھر سے دور ایک قلعہ بنالیا۔

اجمل پر لگنے والی پابندی 2015 میں لیگ اسپنر یاسر شاہ کے لیے نعمت ثابت ہوئی۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹیں حاصل کرنے والے تیز ترین بولر ہیں لیکن غلط ادویات کھانے کی وجہ سے پابندی کا شکار ہوگئے۔ اس سیریز میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرڈ شعیب ملک کی بھی واپسی ہوئی۔ 245 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے کے بعد آگے آنے والے ٹیسٹ میچوں میں وہ ناکام رہے اور محدود اوورز کی کرکٹ پر فوکس رکھنے کے لیے وہ ایک مرتبہ پھر ریٹائر ہوگئے۔ پاکستان اس سیریز میں دو میچوں میں کامیاب رہا، ایک میچ ڈرا ہوا جبکہ انگلینڈ ایک بھی میچ جیت نہ پایا۔

2016 کی پاک۔انگلینڈ سیریز کو دونوں ممالک کے درمیان کھیلے جانے والی بہترین سیریز کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ پاکستان ایک ملک ہے اور اس کی ٹیم میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کا تعلق اسی ملک سے ہوتا ہے۔ لیکن انگلینڈ کی ٹیم میں انگلینڈ، ویلز، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے وہ کھلاڑی بھی شامل ہوتے ہیں جنہیں وہ کھیلنے کے لیے آمادہ کرلے۔

سیریز کے دوران ہم نے فوجی ٹریننگ کیمپس کے لانچ اور سیلوٹ بھی دیکھے۔ لیکن اس سیریز کے سب سے یادگار لمحات وہ تھے جن میں ایسی شخصیات پش اپس لگاتی ہوئی پائی گئیں جو کہ نانا اور دادا بننے کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ سیریز میں ہم نے یونس خان کو ایسے چھلانگیں مارتے دیکھا جیسے کوئی بچہ ٹرامپولین پر لگاتا ہے۔ وہ ابتدائی تین ٹیسٹ میچوں میں کچھ خاص نہ کرپائے لیکن آخری ٹیسٹ میں ان کی ڈبل سنچری کی بدولت پاکستان کی ٹیم نے نہ صرف سیریز برابر کی بلکہ ٹیسٹ ریکنگز میں پہلے نمبر پر براجمان بھی ہوئی۔

پاکستانی کھلاڑی پش اپس لگاتے ہوئے—اے ایف پی فوٹو۔

تاہم اس مرتبہ معاملات قدر مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم ماضی کی ٹیموں جتنی مضبوط نہیں جس کی کوچنگ مکی آرتھر اور قیادت سرفراز احمد کررہے ہیں۔ مڈل آرڈر میں مصباح اور یونس کے علاوہ فرسٹ کلاس میں بے مثال اوسط رکھنے والے فواد عالم کی کمی ہے۔

اس کے بجائے ٹیم چیف سیلیکٹر کی فیملی اور کچھ نئے بچوں پر مشتمل ہے۔

انجری کی وجہ سے سیریز میں یاسر شاہ بھی نہیں ہوں اور نہ ہی ہوں گے وہاب ریاض۔ ظاہری سی بات ہے جب آپ کو منتخب کرنے والے پریس میں جاکر کہیں گے کہ آپ بہت سست ہیں اور ’آپ نے دو سال میں ہمیں کوئی میچ نہیں جتوایا‘۔۔۔ ایسی صورت میں آپ کے سیلیکٹ ہونے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔

لیکن شاداب اچھی کارکردگی کے لیے ایسے ہی بے تاب ہوں گے جیسے شاہد آفریدی اُس بال کو چبانے کے لیے بے تاب تھے۔ شاداب ان شاہکاروں میں سے ایک ہیں جو پی ایس ایل لگاتار متعارف کروارہی ہے۔ اور یہ بہت اچھی بات ہے کیوں کہ انگلینڈ اور لیگ اسپن ایک دوسرے سے بالکل ایسے ہی واقف ہیں جیسے کامران اکمل اور عالمی معیار کی وکٹ کیپنگ۔

پاکستان اس سیریز میں پانچ نئے کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترے گا۔ ان میں سے تین فخر زمان، شاداب خان اور فہیم اشرف ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ محدود اوورز کی کرکٹ کے ماہر ہیں تاہم وہ پاکستان کرکٹ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان وہ جگہ ہے جہاں صرف کرکٹرز ہی جنم لیتے ہیں اور وہ بھی ایسے جو کسی بھی رنگ کی گیند سے امتیازی سلوک نہیں کرتے اور صرف پرفارم کرتے ہیں۔ یہ تینوں کھلاڑی سیریز میں پاکستان کے لیے اہم ہوں گے۔

اظہر علی کو چٹان کی طرح بیٹنگ کی کمان سنبھالنی ہوگی کیوں کہ ان کے علاوہ اس بیٹنگ میں صرف اسد شفیق ہی دکھائی دیتے ہیں جن سے کچھ امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ بہترین بلے باز ہونے کے باوجود اظہر کی صلاحیتوں کو کم ہی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن توقع رکھیں کہ وہ اس دورے کے نمایاں بلے بازوں میں سے ایک ہوسکتے ہیں۔

جیمز اینڈرسن کے پہلے اسپیل اور اسٹورٹ براڈ کی جارحانہ گیند بازی کو اگر پاکستان جھیل جائے تو اس کے بعد کی انگلش گیند بازی اتنی ہی خطرناک دکھائی دیتی ہے جیسے ناشتے کی میز پر مکھن لگا ڈبل روٹی کا ٹکڑا۔

عامر کے کندھوں پر پاکستان کی بولنگ کی ذمہ داری ہوگی لیکن ان سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا شاید درست نہیں۔ اپنی واپسی کے بعد عامر کا کسی بھی سیریز میں اوسط 33 سے کم کبھی نہیں رہا جبکہ 2017 میں ان کا اسٹرائیک ریٹ 90 تھا۔ ان کی فارم کو دیکھتے ہوئے وہ ایک اوسط درجے کے بولر نظر آرہے ہیں۔ نئی گیند کو سوئنگ کرنے کی قابلیت رکھنے والے عامر سے سارا بوجھ برداشت کرنے کی توقع کرنا ایک غلطی ہوگی۔

حسن علی اگر خود کو واہگہ بارڈر پر طعنے مارتے بھارتیوں سے بچاپائیں تو پاکستان کے لیے سیریز میں ’سرپرائز پیکج‘ کا کام کرسکتے ہیں۔ انگلش کنڈیشنز نپی تلی گیند بازوں کو نوازتی ہیں اور حسن میں صحیح مقام پر گیند کرانے کی صلاحیت موجود ہے لیکن انہیں موقع دیے جانے کی ضرورت ہے۔

خیر انگلینڈ کی بیٹنگ لائن بھی مشکلات کا شکار ہے اور اگر پاکستان ایلسٹر کک کو قابو کرلے تو گرین شرٹس کے پاس سیریز جیتنے کا چانس موجود ہے۔

میری پیشگوئی

پش اپس کرنے والا پہلا کھلاڑی: فواد عالم تماشائیوں کے اسٹینڈ سے پش اپس کریں گے جس سے شاید انضمام کا یاد آجائے کہ وہ دورے سے قبل کیمپ کے سب سے فٹ کھلاڑی تھے۔

مائیک پر چلانے والا کھلاڑی: سرفراز اسٹورٹ براڈ کو نصف سنچری کے قریب پہنچنے پر ڈراپ کرکے چلائیں گے۔

وہاب ریاض جیسی مونچھیں اگانے والا کھلاڑی: ایسا کوئی نہیں کرے گا کیوں کہ ایک غلطی پہلے ہی ہوچکی ہے۔

لندن کے کلبوں میں شراب میں کے نشے میں پائے جانے والا کھلاڑی: کھلاڑی نہیں، یہ مکی آرتھر ہوں گے کیوں کہ پاکستان کی کوچنگ کوئی آسان کام نہیں۔

سب سے زیادہ وکٹیں: شاداب خان۔ ان کی بولنگ ٹیلی ویژن پر دیکھے جانے والی سال کی بہترین چیز ہوگی۔

پاکستان کی چیمپئنز ٹرافی کی کامیابی کب دکھائی جائے: دن میں ایک مرتبہ

کمنٹیٹرز وسیم اکرم سے کتنی مرتبہ پوچھیں گے کہ جیمز اینڈرسن دنیا کے سب سے بہترین بولر ہیں: میں اتنی نہیں جانتا۔

آخری میں ایک اہم بات جانیں: سیریز کے لیے ہربھجن سنگھ کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں۔۔۔۔ کیا آپ یقین کرسکتے ہیں؟؟ یہ وہ کیا کر بیٹھے۔۔۔

ڈینس فریڈمین آسٹریلوی صحافی ہیں اور پاکستان کرکٹ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ڈینس اپنے طنزیہ تبصروں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انہوں نے یہ تحریر خصوصی طور پر جیو ویب سائٹ کے لیے لکھی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔