26 مئی ، 2018
لارڈز ٹیسٹ کے دوسرے دن چائے کے وقفے کے بعد ڈریسنگ روم اینڈ سے گیند کرنے والے بین اسٹوکس کی 85 کلو میڑ فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی گئی گیند بابر اعظم کی بائیں کلائی پر لگی تو دائیں ہاتھ کے بیٹسمین درد سے کراہنے لگے۔
گراؤنڈ میں آنے والے ڈاکڑ نے انھیں طبی امداد کے ساتھ برف لگا کر درد دور کرنے کی کوشش کی تاہم بات نہ بنی اور بابر اعظم کو پویلین لوٹنا پڑا۔
اس وقت بابر 120 گیندوں پر 68 رنز بناچکے تھے۔ جب یہ واقع لارڈز کے گراؤنڈ پر ہوا اس وقت چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی پریس بکس میں پاکستانی صحافیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔
ٹی وی اسکرین پر یہ سارا منظر دیکھنے والے چیئرمین نے وہاں موجود قومی ٹیم کے منیجر طلعت علی ملک کو کہا کہ فوراً بابر اعظم کو ایکسرے کے لیے اسپتال بھیجا جائے۔
منیجر صاحب نے ساتھ کھڑے اسسٹنٹ منیجراور میڈیا منیجر کی اضافی ذمہ داریاں ادا کرنے والے عون زیدی کو ڈریسنگ روم کی جانب دوڑا دیا جو تھوڑی دیر بعد فزیو کلف ڈکن کا یہ پیغام لے کر آئے کہ بابر اعظم کی انجری سنجیدہ نوعیت کی نہیں اور ابھی ابتدائی طبی امداد کے ساتھ انہیں ایکسرے کے لیے اسپتال بھجوانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
چیئرمین پی سی بی نے عون زیدی کا جواب سننے کے بعد منیجر سے کہا کہ آپ خود دیکھیں سارے معاملے کو کم ازکم ایکسرے تو بنتا ہے۔
پھر شام کو پریس کانفرنس میں جب اظہر علی سے بابر اعظم کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے بھی سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت پڑنے پر بابر اعظم بیٹنگ کے لیے دستیاب ہوں گے۔
بس پھر کیا تھا، لندن میں موجود صحافیوں نے اخبارات کے لیے اپنی خبریں فائل کر دیں، ٹی وی اسکرین پر بابر اعظم خطرے سے باہر ہیں کی خبریں چل گئیں۔
پھر کہانی میں نیا موڑ آیا، دوسرے دن کھیل ختم ہونے کے دو گھنٹے بعد پی سی بی میڈیا منیجر عون زیدی نے واٹس ایپ کے ذریعے ٹیم فزیو کلف ڈکن کا وڈیو پیغام بھیجا کہ بابراعظم بائیں کلائی میں فریکچر کے سبب لارڈز ٹیسٹ اور لیڈز ٹیسٹ سے باہر ہوگئے ہیں۔
کہانی حیران کن تھی کیوں کہ ٹیم فزیو جو پہلے بابر اعظم کے ایکسرے کے حق میں نہ تھے کہہ رہے تھے کہ سب ٹھیک ہے اب ایکسرے کے بعد غلط ثابت ہوگئے تھے۔
اس ساری کہانی میں غیرذمہ داری کا عنصر اور غیر پیشہ ورانہ رویہ ہی سامنے آیا ہے کیوں کہ اگر قومی ٹیم کے فزیو بروقت بابر اعظم کا ایکسرے کروا لیتے تو شائد اتنی کہانی ہی نہ بنتی۔