31 مئی ، 2018
حکومت کی جانب سے نئی داخلی سلامتی پالیسی کا اعلان کردیا گیا جس کے مطابق کالعدم دہشتگرد تنظیم داعش کو پاکستان کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قراردیا گیا ہے۔
سیکیورٹی پالیسی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کئی شاخیں اور داعش کے دہشتگرد شام اور عراق سے واپس آ کرافغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ جمع ہو رہے ہیں۔
پالیسی کی سفارشات پرعمل درآمد کے لیے وزیر داخلہ کی سربراہی میں عمل درآمد کمیٹی بنے گی، مشیر قومی سلامتی، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) بھی اس کمیٹی کے رکن ہوں گے۔
سیکیورٹی پالیسی میں یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ مدرسوں میں اصلاحات کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
نئی داخلی سیکیورٹی پالیسی میں مساجد اور مدارس میں خطیب، امام اور اساتذہ کو جدید علوم کی طرف راغب کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
پالیسی میں دی گئی سفارشات پرعمل درآمد کے لیے وزیر داخلہ کی سربراہی میں عمل درآمد کمیٹی بنے گی جس میں مشیر قومی سلامتی، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی کے علاوہ وزارت داخلہ، دفاع،خارجہ، اطلاعات، مذہبی امور اور خزانہ کے سیکریٹریز اور نیکٹا چیف شامل ہوں گے۔
وزارت داخلہ اور نیکٹا تمام اسٹیک ہولڈرز سے مل کر نئی پالیسی پرعمل درآمد یقینی بنائیں گے۔
نئی پالیسی کے تحت دہشتگردوں کے بچوں اور خاندانوں کی بحالی سمیت بنیاد پرستی کی روک تھام کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔
مسلح گروہوں اور دہشتگرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں پر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہو گی۔
آئندہ 5 سے 10 سال میں تمام مدارس کو جدیدعلوم سے روشناس ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے جبکہ آڈٹ کرانے والے مدارس کی ریاستی سطح پر مالی معاونت کی جائے گی۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجوہات پرتحقیق کے لیے وزارت داخلہ میں ریسرچ سینٹر بھی بنایا جائے گا۔
نئی داخلی سلامتی پالیسی کی تیاری میں برطانیہ، امریکا، بنگلا دیش، انڈونیشیا اور سری لنکا کی سیکیورٹی پالیسیوں سے رہنمائی لی گئی ہے۔