06 جون ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بدسلوکی کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پولیس اور سابقہ انتظامیہ کی انٹراکورٹ اپیلیں مسترد کرتے ہوئے سزاؤں کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
واضح رہے کہ 13 مارچ 2007 کو اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودہدری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے گھر سے عدالت آتے وقت روکا گیا اور ان سے بدسلوکی کی گئی تھی، اس دوران انہیں بالوں سے کھینچا گیا اور دھکے بھی دیئے گئے۔
عدالت عظمیٰ نے گزشتہ ماہ 16 مئی کو ملزمان کی انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے آج افتخار چوہدری بدسلوکی کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے سابق آئی جی اسلام آباد افتخار احمد اور دیگر 7 پولیس افسران کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے ان کی سزائیں برقرار رکھیں۔
عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد پولیس نے ملزمان کو کمرہ عدالت سے حراست میں لے لیا۔
واضح رہے کہ افتخار چوہدری بدسلوکی کیس میں اسلام آباد کے سابق چیف کمشنر خالد پرویز اور ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد علی کو عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا سنائی گئی تھی، سابق آئی جی پولیس چوہدری افتخار اور ایس ایس پی ظفر اقبال کو 15 دن قید جبکہ ڈی ایس پی جمیل ہاشمی، انسپکٹر رخسار مہدی اور اے ایس آئی محمد سراج کو ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
مذکورہ کیس کی 16 مئی کو ہونے والی سماعت کے دوران ملزم و سابق آئی جی اسلام آباد افتخار احمد کے وکیل خالد رانجھا نے اپنے موکل کی طرف سے غیر مشروط معافی مانگی تھی، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے تھے کہ کیا عدالت غیر مشروط معافی کو تسلیم کرنے کی پابند ہے؟
دوسری جانب جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ معافی قبول کرنا عدالت کی صوابدید ہے۔
جس پر فاضل وکیل نے دلائل دیئے کہ عدالت اس بات کا جائزہ لے کہ آیا معافی نیک نیتی سے مانگی گئی ہے یا نہیں؟
اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ تعین کیسے ہوگا کہ معافی نیک نیتی سے مانگی گئی ہے؟
وکیل خالد رانجھا نے جواب دیا کہ میرے موکل نے پہلی پیشی پر ہی غیر مشروط مانگ لی تھی۔
جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ معافی فردجرم عائد ہونے کے بعد مانگی گئی تھی۔