Time 18 جولائی ، 2018
پاکستان

ججز کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں،ان کی زندگیاں محفوظ نہیں: جسٹس شوکت عزیز صدیقی


اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کہا ہے کہ عدلیہ میں ججز کو اپروچ کیا جارہا ہے اور ججز کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں، ان کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں ایجنسی کا نمائندہ پیش ہوا۔

جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ آپ کے لوگ اپنی مرضی کے بینچ بنوانے کی کوشش کرتے ہیں، ان لوگوں کے کرتوت سامنے آنے چاہئیں ، عدالت نے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ شہریوں، بزنس مین اور بااثر افراد کو اسلام آباد سے اٹھانا معمول بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حساس ادارے اپنی آئینی ذمہ داری کو سمجھیں، عدلیہ، ایگزیکٹیو اور دیگر اداروں میں مداخلت روکی جائے۔

تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ حساس ادارے ملک پر توجہ دیں، ریاست کے اوپر ریاست کا تصور ختم کیا جائے، اگر دیگر اداروں میں مداخلت کو نہ روکا گیا تو تباہ کن ہو گا۔

جسٹس صدیقی نے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ اس الارمنگ صورتحال کو سمجھیں اور دیگر اداروں میں اپنے لوگوں کی مداخلت روکیں۔

عدالت نے عدالتی حکم کی کاپی ،سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو پہنچانے کا حکم دے دیا ۔

عدالت میں پیش کئے گئے بازیاب شخص نے بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے گیا تھا تاہم اس شخص کے بھائی نے عدالت کو بتایا کہ ایجنسیز اٹھا لے گئی تھیں۔

جسٹس شوکت عزیر صدیقی نے کہا کہ بازیاب شخص خوف زدہ لگ رہا ہے۔

جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیے کہ اپنے آپ کو عقل کل مت سمجھیں، عقل کل سے قبرستان بھرے ہیں، پولیس والے ایجنسیوں کے آگے بے بس ہیں۔

عدالت نے اسلام آباد پولیس کے ایس پی انوسٹی گیشن زبیر شیخ پر اظہار برہمی کیا۔

جسٹس صدیقی نے کہا کہ جو افسر سچ نہ بول سکے اور خوف و مصلحت کا شکار ہو اسے پولیس میں نہیں ہونا چاہیے۔

مزید خبریں :