22 جولائی ، 2018
ملک کا سب سے بڑا شہر عام انتخابات کے موقع پر ماضی کے جوش و خروش کی جھلک پیش نہیں کر رہا، انتخابی ماحول کا جائزہ لینے کے لئے شہر کے مختلف علاقوں میں جا کر ووٹرز سے بات کی تو اندازہ ہوا کہ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں بھی انتخابی عمل سے انتہائی عدم دلچسپی پائی جاتی ہے۔
شہر کے کچھ انتخابی حلقوں میں زیادہ گہما گہمی نظر آتی ہے لیکن یہ گہما گہمی عوامی سطح پر نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہے، جلسے جلوس ریلیاں بھی نظر آرہی ہیں لیکن اُن میں جوش نظر نہیں آتا بلکہ یہ دیکھنے میں آیا کہ لوگوں کی آنے والے امیدواروں سے جواب دہی میں زیادہ جذبات نظر آئے یعنی عوام میں سیاسی جماعتوں اور پُرانے ممبران اسمبلی سے گزرے وقت کا حساب مانگنے کا نعرہ زور پکڑ تے ہوئے تحریک کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
کراچی کی بڑی سیاسی جماعت کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد شہر میں پرانے پہلوانوں کے ساتھ کئی نئی جماعتیں اپنے امیداواروں کے ساتھ انتخابی دنگل میں شریک ہیں اور کئی علاقوں میں ہم نے نوجوانوں کو نئے لوگوں کو منتخب کرنے کی بات کرتے دیکھا۔
سیاسی جماعتیں اور امیدوار انتخابی حلقوں میں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ماضی کی شہری اکثریتی جماعت اپنے اندرونی اختلافات کی وجہ سے عوام سے رجوع کرنے کے موقع کو بہت تاخیر سے استعمال کرسکی اور عوام کے ممکنہ سخت رد عمل جس میں باز پرس اور احتجاج کے امکانات تھے، اس وجہ سے بھی کئی حلقوں کا رخ ہی نہ کرسکی۔
اس حوالے سے جب عوام کی رائے جاننے کے لیے جب ووٹرز سے ملاقاتیں ہوئیں تو ایک بڑے طبقے کو انتخابی عمل سے لاتعلقی کا اظہار کرتے دیکھا اور یہ جملے سننے کو ملے کہ ابھی کسی کو ووٹ دینے کا سوچا نہیں، مایوسی کے یہ جملے بھی سنے کہ سب کو آزما چکے کوئی مسائل حل نہیں کرتا۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ شہر کی نمائندہ جماعت کو دبایا جارہا ہے کسی کو ووٹ نہیں دیں گے، شہر کے گنجان ترین علاقوں میں جب آبادیوں میں لوگوں سے احوال لیا تو یہ کہتے بھی سنا کہ جو بھی ہو اپنے پرانے انتخابی نشان کو ہی ووٹ دیں گے۔
مجموعی طور پر یہ احساس زور پکڑ رہا ہے کہ لوگ ان انتخابات میں ناراض ہیں، مایوس ہیں اور خاموش احتجاج پر ہیں جو ووٹنگ کے تناسب پر اثر انداز ہوتے نظر آرہے ہیں۔
عوامی رائے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹرز میں ناراضگی، مایوسی، عدم دلچسپی اور خاموش احتجاج پایا جاتا ہے جس کے اثرات انتخابات کے روز دکھائی دے سکتے ہیں اور قوی امکان ہے کہ ماضی کے مقابلے میں 2018 کے انتخابات کے روز ووٹر ٹرن آوٹ کم ہو جو کسی بھی طور پر انتخابی سیاست کے لیے اچھا شگون نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔