الیکشن کے بعد الگ الگ بیانیہ، شکوک و شبہات میں 'تبدیلی' آگئی ہے!

25 جولائی کو ہونے والی پولنگ کے دوران پشاور کے حلقے این اے 29 میں واقع پولنگ اسٹیشن پر خواتین قطار میں کھڑی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں—۔فائل فوٹو/ رائٹرز

الیکشن 2018 تو ہوگئے لیکن اس کے بعد جو بیانیہ میڈیا میں زیر گردش ہے اس کے مطابق، انتخابات میں دھاندلی ہوئی، 'ٹیکنیکل کرپشن' کی گئی، گنتی اور نتائج میں تبدیلی کرکے 'تبدیلی' لائی گئی اور 'نادیدہ قوت'نے سیاسی قوتوں کو باہر کردیا، انتخابات اور پولنگ کا طریقہ کار شفاف تھا (جس کی غیرملکی میڈیا اور مبصرین نے بھی تائید کی) اور سب سے اہم یہ کہ عوام ووٹ دے کر اپنی مرضی سے تبدیلی لائے ہیں۔

بیانیہ چاہے کوئی بھی ہو، لیکن اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں عام انتخابات 2018 انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ وہ انتخابات ہیں جس میں ملک کے نوجوانوں اور خواتین ووٹرز نے انتخابی کھیل کا پانسہ پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنا حق رائے دہی آزادانہ اور بلاخوف و خطر استعمال کیا۔

کراچی میں انتخابات کی کوریج کے دوران زیادہ خواندگی والے علاقوں سے لے کر گنجان آباد اور ناخواندہ علاقوں تک اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ لوگ اپنی مرضی سے ووٹ کا استعمال کرنے نکلے، اگرچہ ووٹنگ کا تناسب بہت اچھا نہیں رہا لیکن خاموش ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرگئے، جس میں سال بھر کے دوران نئے شناختی کارڈ حاصل کرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔

یہ وہ انتخابات ہیں جس کے دوران ملک میں مختلف قوتوں کے درمیان سرد جنگ کُھلی پروپیگنڈا وار کی شکل میں سامنے آئی اور سوشل میڈیا اس کا وسیع ترین میدان بنا۔

انتخابی عمل کے دوران میں نے کراچی کے کئی حلقوں میں صحافتی فرائض انجام دیئے۔ صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک میں نے پولنگ کے عمل کا بغور جائزہ لیا اور انتخابی اور سیکیورٹی عملے کی کارکردگی پر نظر ڈالی۔ پولنگ کے آغاز پر تو بہت کم علاقوں میں انتخابی کیمپوں میں گہماگہمی نظر آئی لیکن 11 بجے کے قریب اس میں اضافہ نظر آیا۔

 نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں ابراہیم علی بھائی اسکول اور عبداللہ گرلز کالج میں ووٹرز کی آمد کا سلسلہ قریبی چھوٹی گنجان آبادیوں کے ووٹرز سے زیادہ نظر آیا۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی کیمپوں میں لوگوں کو دی گئی پرچیوں پر سلسلہ نمبر اور پولنگ اسٹیشن نمبر درج نہ ہونے کی بناء پر لوگوں کو خصوصاً خواتین کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ایسے ووٹرز بھی ملے جن کے نام ووٹر فہرستوں میں موجود نہیں تھے جبکہ کچھ ایسے تھے جن کے نام دوسرے حلقے میں ڈال دیئے گئے گویا الیکشن کمیشن کی غلطیاں بھی موجود تھیں۔

 اگرچہ ووٹنگ کا تناسب بہت اچھا نہیں رہا لیکن خاموش ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرگئے

دوپہر 12 بجے تک مختلف پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹرز کی آمد کا تناسب 15 سے  17 فیصد تک نظر آیا۔ دوپہر 2 بجے دوبارہ جائزہ لیا تو تناسب 22 سے 25 فیصد تھا۔ 3 بجے کے بعد جب موسم بھی کچھ خوشگوار ہوا تو ووٹرز کی قطاروں میں اضافہ نظر آیا لیکن جب پولنگ ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر قابل ذکر ووٹرز یا قطاریں نہیں تھیں۔

ووٹنگ کا عمل جب مکمل ہوا تو میں این اے 256 میں مسلم پاپولر اسکول کی عمارت میں موجود تھا، جہاں دو پولنگ اسٹیشنز قائم تھے اور 2 بینک افسران یہاں پریذائیڈنگ آفیسر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ میں تقریباً 3 سے 4 گھنٹے اس پولنگ اسٹیشن میں موجود رہا۔ پولنگ اسٹاف کافی دیر تک گنتی میں مصروف رہا،  پولنگ ایجنٹ بھی موجود تھے لیکن گنتی کافی سست روی کا شکار تھی، 3 گھنٹے بعد پتہ چلا کہ ابھی صرف 3 سے 4 ڈبوں کی گنتی ہوئی ہے۔

پہلی منزل پر قائم دوسرے پولنگ اسٹیشن میں بھی کم و بیش یہی حال تھا۔ پولنگ اسٹاف میں شامل کچھ خواتین پریشان نظر آئیں کہ انہیں دیر تک رکنا پڑ رہا ہے۔ یہ عمل رات دیر تک نارتھ ناظم آباد، سرسید ٹاؤن اور پہاڑ گنج کے علاقوں میں قائم پولنگ اسٹیشنوں میں جاری رہا۔ 

گنتی پوری ہونے کے بعد کئی پولنگ اسٹیشنز پر فارم 45 مکمل ہونے میں گھنٹوں کی تاخیر ہوئی۔ میں رات گئے تک ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر (ڈی آر او) کے کیمپ آفس پر موجود رہا لیکن نتائج کے الیکٹرانک نظام نے ساتھ چھوڑ دیا اور نادرا کے تعاون سے بننے والا رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کامیاب نہ ہوسکا، جس کے بعد پریذائیڈنگ آفیسر کو ہاتھ سے تحریر شدہ رزلٹ ریٹرننگ افسران (آراوز) تک خود پہنچانا پڑا۔

پولنگ اسٹیشنوں سے آراوز کے آفس تک یہ سفر بھی کئی گھنٹوں پر محیط تھا۔ پریذائیڈنگ افسران نے بتایا کہ وہ سول انتظامی امور کے ساتھ فوج کے ڈسپلن کے عادی نہیں تھے،  اس لیے ایک ساتھ گنتی شروع کرنے اور ایک ساتھ سامان پیک کرنے کی ہدایات سے دباؤ محسوس کیا اور کام میں مزید تاخیر ہوئی۔ سرکاری ملازم یا پریذائیڈنگ افسران کیمرے کے سامنے بات کرنے سے گریزاں تھے، لہذا انہوں نے اپنا موقف آف دی ریکارڈ ہی بتایا۔

ڈی آر او کیمپ آفس کے باہر ایک پریذائیڈنگ افسر نے بتایا کہ بڑی تعداد میں اسٹاف نے پہلی مرتبہ الیکشن ڈیوٹی دی، جنہیں رزلٹ تیار کرنے کی مہارت نہیں تھی۔ ایک افسر نے بتایا کہ ووٹوں کی گنتی شروع کرانے کا اختیار پریذائیڈنگ آفیسر کا تھا لیکن دیگر امور انجام دینے والے عملے نے ہدایات دینی شروع کردیں اور جلد سے جلد گنتی کی بجائے ڈسپلن میں ایک ساتھ تمام گنتی شروع کی گئی جو 2 گھنٹے تاخیر کا سبب بنی۔

سیاسی اکھاڑوں سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ انتخابات کے نتائج کو عام آدمی نے تسلیم کرلیا ہے

ایک اور پریذائیڈنگ آفیسر نے بتایا کہ نفسیاتی دباؤ کے ساتھ گنتی کرنے اور تحریری نتائج مرتب کرنے میں کئی مرتبہ غلطیاں بھی ہوئیں جبکہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے نتائج کے ساتھ دیگر انتخابی سامان سمیٹ کر ساتھ لے جانا بھی تاخیر کی وجہ بنا۔

نتائج پہنچانے کے ذمہ دار افسران نے اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتطامیہ کو ٹرانسپورٹیشن کے امور انجام دینے چاہیے تھے۔کئی گھنٹے گاڑیوں میں بیٹھے رہنے کے بعد ہم سیکیورٹی قافلے کے ساتھ چلے اور کئی گھنٹے بعد آراوز کے دفتر پہنچنے کے بعد کھڑے رہے کہ اندر جگہ خالی ہوتو گاڑی لگائیں اور سامان اتارا جائے۔

انتخابی عملے نے بتایا کہ نادرا کا بنایا گیا رزلٹ مینجمنٹ سسٹم تربیت کے دوران ہی دغا دے گیا تھا لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ڈی آر اوز کے دفاتر سے دوسرے دن دوپہر سے نتائج نکلنے کا سلسلہ شروع ہوا جو رات گئے تک جاری رہا۔

بہرحال ملک کی تاریخ میں عام انتخابات 2018 کا انعقاد پر امن طریقے سے ہوگیا اور جیسے بھی ملے لیکن نتائج بالآخر ترتیب پا گئے۔ سیاسی اکھاڑوں سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ انتخابات کے نتائج کو عام آدمی نے تسلیم کرلیا ہے۔  کوئی اسے عوام کی جیت، کوئی نظام کی کامیابی، کوئی پرانے چہروں کو مسترد کرنے اور کوئی تبدیلی کا نام دے رہا ہے۔ سب سے اچھی نوید یہ ملی کہ عام آدمی نے ووٹ دیا یا نہیں لیکن اس نے ووٹ کی اہمیت کو بڑی اچھی طرح سے پرکھ لیا، خصوصاً نوجوانوں نے انتخابات میں بہت واضح پیغام دیا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔