31 اگست ، 2018
لاہور: ہائیکورٹ نے نوازشریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزاؤں کے خلاف درخواستیں خارج کردیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں جسٹس عاطر محمود اور جسٹس شاہدجمیل خان پر مشتمل تین رکنی فل بینچ نے نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کی سزاؤں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ نیب قانون کا آرڈیننس سابق صدر پرویز مشرف نے جاری کیا لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد ختم ہوچکا ہے، تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص کواس قانون کے تحت سزادی گئی جو ختم ہوچکاہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو مردہ قانون کے تحت سزا دی گئی لہٰذا عدالت نیب کے مردہ قانون کے تحت دی سزا کو کالعدم قرار دے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا۔
عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے نیب آرڈیننس 1999کو کالعدم قرار دینے اور تینوں شخصیات کی سزاؤں کےخلاف درخواستیں خارج کردیں۔
واضح رہے کہ نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزاؤں کی معطلی کی ایک درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی دائر ہے جس پر عدالت نے سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کررکھا ہے جو عدالت نے 20 اگست کو سنانے کی بجائے مؤخر کردیا۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی ہے جس کے بعد نوازشریف اور مریم کو پاکستان واپسی پر گرفتار کیا گیا جب کہ کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام نے راولپنڈی سے گرفتار کیا اور تینوں شخصیات اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
عدالت نے عدم حاضری کی بناء پر حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دے کر ان کا کیس الگ کر رکھا ہے۔
مزید شواہد سامنے آنے پر نیب نے 22جنوری 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا ضمنی ریفرنس بھی احتساب عدالت میں دائر کیا۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر 18گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے، جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔