07 ستمبر ، 2018
کراچی: شہرقائد میں لینڈ مافیا نے پہاڑ تک نہ چھوڑے اور ہل پارک کی مزید پہاڑیوں کو کاٹ کر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی جسے ناکام بنادیا گیا۔
چور، چوکیدار سے مل جائے تو کوئی چیز محفوظ نہیں رہتی اور کراچی میں قیمتی سرکاری زمینوں کا بھی یہی حال ہے۔
کہیں سیاسی جماعتوں کی ’زر پرستی‘ تو کہیں متعلقہ اداروں کی سرپرستی میں جس کا جب اور جہاں موقع لگتا ہے، وہ سرکاری زمینوں پر قابض ہوجاتا ہے۔
اندھی کا یہ سلسلہ کراچی کے قدیم اور مشہور ہل پارک میں جاری ہے، گزشتہ سال ڈائریکٹر جنرل پارک کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے میونسپل کمشنر کراچی کو ایک خط میں انکشاف کیا کہ ہل پارک کی پہاڑی کاٹ کر 42 پلاٹ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) اور 7 پلاٹس غیر قانونی طور پر پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی نے الاٹ کئے جن کی مالیت اربوں روپے ہے۔
ابھی اس خط کی سیاہی سوکھی بھی نہ تھی کہ چند روز قبل ہل پارک پر پھر قبضہ شروع کیا گیا اور ہل پارک کی مزید پہاڑیوں کو کاٹ کر قبضے کی کوشش کی گئی تاہم سوشل میڈیا پر شور مچنے سے نہ صرف قبضہ رک گیا بلکہ میئر کراچی نے سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر پارکس محمد ندیم کو معطل کر دیا اور انہیں ہل پارک میں تجاوزات قائم کرانے کا ذمے دار ٹھہرایا گیا۔
میئر کراچی کا کہنا ہے کہ ہل پارک کی چائنہ کٹنگ کرنے والوں کی پی ای سی ایچ ایس آفس نے بھی مدد کی ہے کیونکہ ہل پارک کی زمین پر قبضہ کرنے والوں کو پی ای سی ایچ ایس نے لیز پیپر جاری کیئے ہیں۔
ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ کے ڈی اے جب کے ایم سی کے زیر انتظام چلتا تھا تو اس دور کے افسران نے مل کر چائنا کٹنگ کی جب کہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے گندے انڈے اور ہل پارک کے ملازمین بھی اس جرم میں ملوث ہیں۔
کے ایم سی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی دستاویز میں انکشاف ہوا ہےکہ برسوں پہلے ہل پارک کی پہاڑیاں کاٹ کر زمینوں پر قبضہ اور چائنا کٹنگ کی گئی اور اس جگہ پر اب 57 بنگلے اور کمرشل عمارتیں بن چکی ہیں۔
پولیس نے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا ہے اور ایف آئی آر میں دو ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ پارک کے اطراف پولیس اہلکار بھی تعینات کردیے گئے ہیں۔