26 ستمبر ، 2018
کرکٹ کو اعداد وشمار کا کھیل کہا جاتا ہے تاہم اگر ایشیا کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کی بیٹنگ کارکردگی کا تجزیہ کیا جائے تو اس کارکردگی کو کسی بھی طرح اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ یہ سب ایسے وقت ہوا ہے جب پاکستان کرکٹ بورڈ اور قومی سلیکشن کمیٹی نے محدود اوورز کے لیے شعیب ملک کو نائب کپتان بنانے پر غور شروع کردیا ہے۔
31 سالہ سرفرازاحمد کی کپتانی میں اس وقت پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم نمبر ایک ہے۔ گزشتہ سال انہوں نے پاکستان کو آئی سی سی چیمپنز ٹرافی جتوائی۔ چیمپنز ٹرافی کے بعد سے سرفراز احمد بیٹنگ میں وہ جوہر دکھانے میں ناکام ہیں جس کیلئے وہ شہرت رکھتے ہیں۔
ایشیا کپ کے چار میچوں میں68 رنز سرفراز احمد کی کلاس کے عین مطابق نہیں ہیں۔ ٹیم پاکستان ان سے بڑی کارکردگی کی توقع رکھتی ہے۔ پاکستانی ٹیم کو ایشیا کپ کے بعد آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقا کے خلاف تینوں فارمیٹ میں سیریز اور ورلڈ کپ سے قبل انگلینڈ میں پانچ ون ڈے میچوں کی سیریز میں شرکت کرنا ہے اور یہ اہم سیریز سرفراز احمد سمیت کئی کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی۔
2018 سرفراز احمد کیلئے ون ڈے کرکٹ میں وہ خوشیاں نہیں لاسکا جو گذشتہ سال چیمپئنز ٹرافی میں دکھائی دی تھی۔ سرفراز احمد نے رواں برس 15 ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلے، چار میچز میں ان کی بیٹنگ نہ آسکی جبکہ تین اننگز میں وہ ناٹ آؤٹ رہے۔ سرفراز احمد نے دس مہینوں کے دوران صرف 166 رنز بنائے۔ سال میں انہوں نے واحد سنچری نیوزی لینڈ کے خلاف ہیملٹن میں بنائی جبکہ انہوں نے دوسری بڑی اننگز ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف 44 رنز کی کھیلی۔ سرفراز احمد نے پاکستان کی جانب سے95 ون ڈے میچوں میں 1816رنز بنائے ہیں۔ وہ پاکستان کے لیے41 ٹیسٹ اور48 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز بھی کھیل چکے ہیں۔
ورلڈکپ کرکٹ ٹورنامنٹ اب 8 ماہ دور ہے،ایسے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اپنی ناقص بیٹنگ فارم کے باعث مسلسل تنقید کی زد میں ہیں۔ انگلینڈ آئندہ سال مئی میں ورلڈکپ کی میزبانی کرے گا۔ ایشیا کپ میں سرفراز احمد کی بیٹنگ کارکردگی نے ان کے ناقدین کو کھل کر تنقید کا موقع دیا ہے۔ لیکن کپتان کی حمایت میں ہیڈ کوچ مکی آرتھر کھڑے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ 'میں نے جن بڑے کپتانوں کے ساتھ کوچنگ کی ان میں سرفراز احمد کسی بھی طرح آسٹریلیا کے مائیکل کلارک اور جنوبی افریقا کے گریم اسمتھ سے کم نہیں ہیں'۔
سرفراز احمد نے دو سال پہلے شاہد آفریدی کی جگہ ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی سنبھالی تھی۔ اس کے بعد سے وہ تینوں فارمیٹ میں پاکستان کی قیادت کررہے ہیں۔ کپتانی کا اضافی بوجھ ان کی بیٹنگ کی کارکردگی پراثر انداز ہورہا ہے۔ مسلسل ناقص پرفارمنس کے باوجود ہیڈ کوچ مکی آرتھر کہتے ہیں کہ 'پاکستان ٹیم میں سرفراز احمد کی کپتانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ان کی بیٹنگ پوزیشن پر بھی کوئی تشویش نہیں ہے۔ سرفراز احمد اچھا کررہے ہیں اور ذمے داری بھی لے رہے ہیں لیکن ایشیا کپ میں جس طرح سب نے بیٹنگ کی ہے وہ مایوس کن ہے'۔
مکی آرتھر ایک بار پھر کپتان سرفراز احمد کی حمایت میں سب سے آگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے جن کپتانوں کے ساتھ کام کیا ہے ان میں سرفراز احمد کو میں آسٹریلیا کے مائیکل کلارک اور جنوبی افریقا کے گریم اسمتھ کے ہم پلہ اور اعلیٰ پائے کا کپتان تصور کرتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ اعتماد کا کھیل ہے اس وقت ٹیم گری ہوئی ہے اور اس میں اعتماد کی شدید کمی ہے تاہم اس کے باوجود میں سرفراز احمد کو بڑے کپتانوں کی صف میں رکھوں گا۔
بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد مکی آرتھر سے سرفراز احمد کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سرفراز کی کپتانی میں بہتری آرہی ہے۔ وہ ہروقت سیکھنے والے کپتان ہیں، وہ واحد کپتان ہے جس میں فیلڈ اور فیلڈ سے باہر توازن ہے، ہر میچ کے بعد میں اور سرفراز بیٹھ کر ڈی بریفنگ کرتے ہیں۔
بھارت کے سابق کپتان سارو گنگولی کا بھی کہنا تھا کہ سرفراز احمد ایک دلیر اور بڑے دل کا کھلاڑی ہے، خصوصاً گذشتہ سال چیمپیئنز ٹرافی میں بطور وکٹ کیپر کپتان سرفراز احمد نے جس انداز میں ٹیم کو کھلایا، وہ کمال تھا۔ گنگولی نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور سابق کرکٹرز کو مشورہ دیا کہ بطور کپتان سرفراز احمد کو اعتماد اور حوصلہ دیں، کیوں کہ ان کے خیال میں ٹیم پاکستان کی حالیہ فتوحات میں سرفراز احمد کے فیصلوں کا اہم کردار رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سرفراز احمد جیسے کرکٹرز روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
ورلڈ کپ قریب ہے،پاکستان کرکٹ بورڈ نے مکی آرتھر اور دیگر کوچنگ اسٹاف کو ورلڈ کپ تک معاہدہ دیا ہوا ہے۔ سرفراز احمد کو سیریز بائی سیریز کپتان بنایا جارہا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ان کی کارکردگی میں جھول آیا سرفراز احمد کے ساتھ شعیب ملک کو نائب کپتان بنانے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا جبکہ محمد رضوان کو ان کے ساتھ ریزرو وکٹ کیپر بناکر ٹیسٹ ٹیم میں بھیجا جارہا ہے۔
ورلڈ کپ کے قریب سرفراز احمد کی کارکردگی یقینی طور پر تشویش ناک ہے لیکن اس صورتحال میں انہیں اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر قیادت کی تبدیلی سے کچھ لوگوں کا ایجنڈا ضرور پورا ہوگا لیکن ٹیم کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔