کھیل
Time 27 ستمبر ، 2018

ایشیا کپ میں پاکستانی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم

سپرفور مرحلے میں بنگلہ دیش سے شکست کے بعد ایشیا کپ سے باہر ہونے والی پاکستانی ٹیم کو شدید تنقید کا سامنا ہے—۔فوٹو/ بشکریہ پی سی بی آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سسک سسک کر فائنل کی جانب رینگنے والی پاکستانی ٹیم سے بنگلہ دیش کے ’’زخمی‘‘ شیر بھی نہ سنبھالے گئے اور پاکستانی بیٹنگ لائن ایسا ڈوبی کہ پھر اُبھر ہی نہ سکی۔ بنگلہ دیش کی ٹیم کے پاس نہ تو ان کے اسٹار کھلاڑی تمیم اقبال تھے اور نہ ہی شکیب الحسن لیکن وہ پھر بھی فخر، امام، بابر، ملک، سرفراز، آصف اور شاداب پر بھاری پڑ گئے۔ اگر پاکستان کی کل کی کارکردگی کا تھوڑا باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ چند وجوہات سامنے آتی ہیں۔

پاکستانی ٹاپ آرڈر کو کسی کی نظر لگ گئی!

فخر زمان جو چند روز قبل تک اپنی راہ میں سامنے آنے والے ہر ریکارڈ کو پاش پاش کرتے نظر آرہے تھے، وہ اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی بیٹنگ کو کوئی قابل ذکر ’’اسٹارٹ‘‘ نہ دے سکے۔ بنگلہ دیش کے خلاف پہلے ہی اوور میں انھوں نے جس انداز سے شاٹ کھیلنے کی کوشش کی وہ بڑے عرصے تک ان کو ڈراؤنے خواب کی طرح ڈراتی رہے گی۔

امام الحق نے بہرحال کئی بار اپنا حصہ ڈالنے اور ٹیم کو سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے اہم میچوں میں اُس وقت اپنی وکٹ گنوائی، جب اُن سے آخر تک بیٹنگ کرنے کی توقع کی جارہی تھی۔ 

دوسری جانب بابر اعظم کو آنے والے وقتوں کے لیے پاکستانی بیٹنگ کی امید کہا جا رہا ہے لیکن ان کی کارکردگی میں بھی تسلسل نظر نہیں آیا۔ 

پاکستانی بیٹنگ کا ایک عرصے سے یہ مزاج ہے کہ اگر ٹاپ آرڈر رنز نہ کرے تو مڈل آرڈر، لوئر مڈل آرڈر اور ٹیل اینڈرز بھی وقت سے پہلے ہمت ہار جاتے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں ٹاپ آرڈر کچھ خاص نہ کر سکا اور یہی بات ہم مجموعی طور پر پاکستانی بیٹنگ لائن کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں۔

سرفراز پریشان دکھائی دیئے!

یہ پوری پاکستانی ٹیم اور بورڈ کے لیے بھی پریشانی کی بات ہے۔ یہ وہی سرفراز ہیں جن کی چالاکی بھری چالوں اور بھروسہ مند بیٹنگ کی بدولت پاکستان ماضی میں کئی بار مشکلات میں گھرا ہونے کے باوجود بطور فاتح سامنے آیا ہے لیکن بطور بیٹسمین اور کپتان اس ٹورنامنٹ میں سرفراز نے کئی فاش غلطیاں کیں۔

اُن کی بیٹنگ میں وہ چستی اور پھرتی دکھائی نہیں دی جو ہمیشہ سے ان کا خاصہ سمجھی جاتی رہی ہے اور بنگلہ دیش کے خلاف آخری میچ میں شروع ہی میں وکٹیں حاصل کر لینے کے بعد دباؤ بڑھانے کے بجائے ان کا ’’ریلیکس‘‘ ہوجانا نہایت حیران کن قرار دیا جاسکتا ہے۔

ان کی فیلڈ پوزیشنز اور باؤلنگ میں تبدیلیوں پر بھی کئی ماہرین نے سوالات اٹھائے ہیں جو کہ سب کے لیے ایک نئی بات ہے۔ سرفراز کی بطور زیرک کپتان اور قابل بھروسہ بیٹسمین واپسی تک پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری بظاہر ممکن نہیں۔

باؤلنگ لائن کہاں گئی؟

نئے سامنے آنے والے کھلاڑیوں میں حسن علی اور شاداب ورلڈ کلاس باؤلر ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں۔ دونوں کے باؤلنگ ریکارڈ بھی اس بات کے گواہ ہیں، لیکن ایشیا کپ میں ان دونوں کی کارکردگی کو ہر گز لائق تحسین نہیں کہا جاسکتا۔

ان دونوں کا ایک ساتھ ’’آف کلر‘‘ ہو جانا پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ پاکستان باؤلنگ لائن کے مستقل ارکان ہونے کی وجہ سے بھی ان پر اب دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

شاہین شاہ آفریدی اور عثمان شنواری نے بہرحال اپنی سی کوشش ضرور کی اور کئی جگہ متاثر کن دکھائی دیئے۔ خاص طور پر شاہین نے اپنی رفتار اور مستقل مزاجی سے ماہرین کو اپنے سنہرے مستقبل کی نوید سنا دی ہے۔

جنید خان کو جب جب ٹیم میں کھیلنے کے لائق سمجھا گیا، اس کھلاڑی نے اپنی کوششوں سے سب کو حیران کیا ہے۔ پورے ٹورنامنٹ میں ان کو صرف بنگلہ دیش کے خلاف میچ کھلایا گیا اور انھوں نے بہترین پرفارمنس دے کر اپنے انتخاب کو درست بھی ثابت کیا۔ ان کو مستقل مزاجی کے ساتھ مواقع دیئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کھلاڑی میں باقی کرکٹ سے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے۔ 

محمد عامر کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔اب وہ پاکستان ٹیم کی باؤلنگ کے لیے ’’آٹومیٹک چوائس‘‘ نہیں رہے اور اب انھیں ڈومیسٹک کرکٹ اور دیگر لیگز میں کھیل کر اپنی اُس کارکردگی کو دہرانے کی ضرورت ہے جس کی جھلک ہمیں اُن کے میچ فکسنگ کے معاملات میں پھنسنے سے پہلے اور چیمپئنز ٹرافی کے فائنل کے دوران بارہا دکھائی دی۔

فیلڈنگ پر توجہ کی ضرورت!

پاکستان کی فیلڈنگ ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ عالمی ماہرین بھی اس بات کے معترف ہیں لیکن فیلڈنگ ایسی چیز نہیں کہ اس کے اچھے ہونے کے بعد صرف پرانے اعدادوشمار پر تکیہ کر کے بیٹھ جایا جائے۔ ایشیا کپ کے مقابلوں میں پاکستان نے بہت کیچز ڈراپ کیے، جس کا اثر ان میچز اور ٹورنامنٹ میں پاکستان کی مجموعی کارکردگی پر بھی پڑا۔ ہمارے نئے فیلڈنگ کوچ پر اب بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے اور انھیں اب اس سارے معاملے کو نئے سرے سے دیکھنا ہوگا۔

ایشیا کپ سے باہر ہونے اور ٹورنامنٹ کے فائنل تک میں پہنچنے میں ناکامی کے بعد ہمارے پاس اب دو راستے ہیں۔ ایک، یا تو ہم اس شکست کو گلے کا ہار بنا لیں اور اس کی بنیاد پر ٹیم میں دھڑا دھڑ تبدیلیاں شروع کردیں یا پھر اس سے سبق سیکھتے ہوئے آگے آنے والی سیریز اور ورلڈ کپ کی تیاری کریں۔ میں تو دوسرا راستہ چننے کو ترجیح دوں گا اور آپ ؟؟؟

مزید خبریں :