27 ستمبر ، 2018
وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد لاہور کے سینئر صحافیوں کے ساتھ مقامی ہوٹل میں ایک بیٹھک کا انعقاد کیا، ہوٹل پہنچے توعمران خان کی سادگی پالیسی سامنے آگئی کہ چائے کے وقت صرف ایک کپ چائے اور بسکٹ سے زیادہ توقع نہ کی جائے۔
ایک تو وزیراطلاعات 45 منٹ کی تاخیر سے پہنچے، لیکن اس سے پہلے سادگی کا یہ عالم تھا کہ جہاں بیٹھک لگائی جانی تھی وہاں تیاری کی جارہی تھی، پھر دوسری جگہ بٹھایا تو 60 صحافیوں کے لئے 30 کرسیاں رکھی گئیں،اتنی سادگی تو پہلی بار سامنے آئی کہ ایک کرسی پر دو لوگ بیٹھیں گے اور وہ بھی صحافی، رش بڑھا تو ایک دوسرے ہال میں لے جایا گیا، وہاں بھی ایسا ہی ہوا کہ صحافیوں کو بٹھانے کے لئے کوئی کہیں سے کرسی کھینچ کر لارہا ہے اورکوئی کہیں سے لارہا ہے۔ بہرحال چائے کے ساتھ کافی، سینڈوچ، کیک پیس اور سموسے بھی تھے۔
فواد چودھری نے اپنی بات کا آغاز آف دی ریکارڈ کہہ کر شروع کیا، اس میں ملکی حالات کا احاطہ کیا، لوگوں کو سکھ دینے کی بات کی گئی، صحافیوں کے سوالات میں مرکزی سوال سول فوجی تعلقات پررہا، وزیراطلاعات سے جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی ہیڈ کواٹر میں وزیراعظم کو دی جانے والی بریفنگ پردریافت کیا گیا تو فواد چودھری نے بتایا کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہے اور فوج جموریت کو قائم رکھنے کی پوری طرح حمایت کرتی ہے۔
صحافیوں کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، وہ پہلے آن دی رکارڈ کہہ چکے ہیں کہ فوج اور سول حکومت ایک پیج پر ہی ںہیں بلکہ کتاب بھی ایک ہی ہے۔
چین اور سعودی عرب تعلقات پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ فواد چودھری نے سعودی عرب کے دورے کے بعد پریس کانفرنس میں بتادیا کہ سعودی عرب سی پیک میں تیسرا اقتصادی پارٹنر ہوگا تاہم ملک کے معاشی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ میڈیا میں چرچا ہے کہ سعودی عرب فوری طور پر ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا تو انہوں نے بتایا کہ یہ تو ہم نے کہا ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ ساڑھے تین ارب ڈالر تک سرمایہ کاری فوری ہوجائے گی۔
چین سے پاک چین دوستی کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ چین پاکستان کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے اور چین نے یقین دھانی کرائی ہے کہ وہ ساتھ جاری رکھے گا اور حکومت نے بھی یقین دہانی کرائی کہ سی پیک کو مکمل کیا جائے گا، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ چین کو یہ بات بھی باور کرائی گئی کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملکوں سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے اور بھارت سے بھی اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، تاہم مقبوضہ کشمیر متنازع خطہ ہے اور پاکستان اپنے موقف پر اٹل ہے، پاکستان کوئی جنگ نہیں کرنا چاہتا اور تمام متنازع مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔
صحافیوں کا ایک اور بڑا سوال تھا، ٹی وی اور اخبارات کے اشتہار کا جس پر وزیراطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم نے سرکاری اشتہاروں کے ذریعے اپنی تشہیر کا سختی سے منع کیا ہے اور ضرورت سے زیادہ اشتہار دینا ان کی پالیسی میں شامل نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے پرنسپل انفارمیشن آفیسر شفقت صاحب کا نام لے کر بتایا کہ افسران نے مشورہ دیا ہے کہ جو بھی پراجیکٹ بنے اس کے پی سی ون میں اشتہارات کی رقم شامل کرکے منظور کروالی جائے۔
پرنسپل انفارمیشن شفقت صاحب ایک ایماندار اور پروفیشنل آفسیر ہیں۔ وزیراطلات کو اتنا بتاتا چلوں کہ شفقت صاحب جیسے دوسرے افسران نے ہی پچھلی حکومت کو مشورے دے کر خوب اشتہارات چلوائے۔ یہ بھی مشورہ دیا کہ براہ راست اشتہار دینا حکومت کا کام نہیں ہے، لہذا اشتہارات ایجنسیوں کے ذریعے دئیے جائیں اور یوں پچھلی حکومت کے وزیروں اور انفارمشین کے افسران نے خوب دہاڑی لگائی۔ اب افسران مشورے دے رہے ہیں کہ حکومت خود اشہتار دے اوراشتہارات کی رقم کو پی سی ون میں شامل کرلیا جائے، بس اتنا کہوں گا کہ وزیراطلاعات اور ان کی حکومت میں شامل دوسرے لوگ کچھ خود بھی سوچ لیا کریں کہ یکدم اشتہاروں کی تعداد بہت کم کرنے سے میڈیا انڈسٹری کو کتنا نقصان ہوگا اور ان میں کام کرنے والوں کو بہت سے صحافیوں اور ورکروں کو بے روزگار ہونا پڑے گا۔
باقی رہی آف دی ریکارڈ باتوں کا تو جو ہم نے وزیراطلات سے میٹنگ کی روداد بتائی اس میں کوئی آف دی ریکارڈ بات نہیں تھی، کسی نہ کسی طرح میڈیا پر آتی رہی بلکہ وزیراطلاعات کے ذریعے ہی آتی رہی ہیں۔
رئیس انصاری جیو نیوز کے لاہور میں بیوروچیف ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔