13 نومبر ، 2018
کراچی: قومی کرکٹ ٹیم کے سابق لیگ اسپنر عبدالرحمان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کرکٹ میں پسند نا پسند کا کلچر موجود ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام 'اسکور' میں گفتگو کرتے ہوئے عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ کچھ کھلاڑی واجبی سی کارکردگی پر خوشامد اور پی سی بی سے قربت کے سبب قومی ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں۔
سابق لیگ اسپنر نے مین آف دا میچ ایوارڈ حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کے کوچز اور دیگر کے نام لینے سے متعلق سوال پر کہا کہ ایسا کھلاڑیوں کو مجبوری میں کرنا پڑتا ہے، ایوارڈ لینے سے پہلے کھلاڑی کو کہا جاتا ہے، کس کس کا نام لینا ہے، اگر کھلاڑی کسی کا نام لینا بھول جائے تو اس کے لئے مسئلے ہو جاتے ہیں۔
عبدالرحمان نے کہا کہ بہترین کارکردگی پیش کرنے والا کھلاڑی اپنی پرفارمنس کے علاوہ 20 نام لینے پر ناچاہتے ہوئے بھی مجبور ہوجاتا ہے، میں کسی کے نام لینے کے خلاف نہیں، ضرور نام لیں لیکن ان لوگوں کا جو آپ کی رہنمائی کرتے ہیں۔
سابق لیگ اسپنر کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ سب چڑھتے سورج کی پجاری ہیں، جو کھلاڑی ٹیم سے ڈراپ ہوجاتا ہے، اس سے ٹیم والے کھلاڑی ویسے ہی ملنا پسند نہیں کرتے، کیوں کہ ٹیم کا کلچر انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا، وہ جہاں ہوتے ہیں، صرف وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہی رہنا اور گفتگو کرنا ان کی مجبوری بن جاتا ہے۔
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے 38 سال کے عبدالرحمان نے کہا کہ قومی ٹیم کے کوچز بڑے ڈیمانڈنگ ہوتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کھلاڑی ان کی مرضی سے چلیں، حتٰی کہ وہ اس بات سے بھی ناخوش ہوتے ہیں کہ جن کھلاڑیوں کو وہ پسند نہیں کرتے ان سے بات بھی نہ کی جائے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ کھلاڑیوں کی آزادی نہیں چھیننا چاہیے، یہ کھلاڑی کا حق ہونا چاہیے کہ وہ کس سے ملتا ہے، کس کے ساتھ کھانا کھانے جاتا ہے۔
عبدالرحمان نے ایک کوچ کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک کوچ تو اس حد تک چلے جاتے تھے کہ اپنی بات نا ماننے والے کھلاڑی کو وہ ٹیم سے نکلوا دیتے تھے۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2007ء میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں انضمام الحق کی قیادت میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے عبدالرحمان نے آخری ٹیسٹ اگست 2014ء میں سری لنکا کے خلاف کولمبو میں کھیلا، انہوں نے 22 ٹیسٹ میچز میں 99 وکٹیں حاصل کیں اور صرف ایک وکٹ کی کمی سے وہ وکٹوں کی ٹیسٹ کرکٹ میں سنچری نہ مکمل کر سکے۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے عبدالرحمان نے بتایا کہ تین سال ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کے بعد بھی ان کے نام پر غور نہیں کیا جا رہا تھا تو انہوں نے سوچا اب بہتر ہے کہ ریٹائرمنٹ لے لی جائے اور اب کسی نے موقع نہیں دینا، درحیقیت یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو میں نے خوشی سے نہیں کیا، البتہ میں مجبور تھا۔