,
Time 28 نومبر ، 2018
پاکستان

آشیانہ ہاؤسنگ کیس: شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 9 دن کی توسیع


لاہور: احتساب عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 9 دن کی توسیع کردی۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کے سلسلے میں 5 اکتوبر سے قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور کی تحویل میں ہیں۔

احتساب عدالت کے جج سید نجم الحسن نے شہباز شریف کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر وارث علی جنجوعہ اور اسد اللہ جبکہ شہباز شریف کی جانب سے ان کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر جج نجم الحسن نے استفسار کیا کہ شہباز شریف کا کتنے دن کا ریمانڈ ہوچکا ہے؟

جس پر نیب حکام نے بتایا کہ شہباز شریف 54 روز سے تحویل میں ہیں، تاہم سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے تصحیح کی کہ 55 دن ہوچکے ہیں۔

احتساب عدالت کے جج نے مزید استفسار کیا کہ 55 روز ہوگئے، کیا تفتیش مکمل نہیں ہوئی؟

جس پر نیب حکام نے جواب دیا کہ کافی سارے دن قومی اسمبلی کا اجلاس بھی جاری رہا، جس کی وجہ سے تفتیش نہیں ہوسکی۔

تاہم شہباز شریف نے کہا کہ اس دوران بھی تفتیش ہوتی رہی اور انہیں سوالنامہ دیا گیا تھا۔

 نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ پراجیکٹ میں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور اُن پر بطور وزیراعلیٰ قومی خزانے کو کڑوروں کا نقصان پہچانے کا الزام ہے۔

نیب کے تفتیشی افسر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ انھوں نے کوئی کرپشن کی ہے بلکہ جو گفٹس دیئے گئے ہیں ہم ان کی تفتیش کرنا چاہتے ہیں۔

تفتیشی افسر کے مطابق حمزہ شہباز شریف کو 2011 میں جو گفٹ دیئے گئے، اس کا ریکارڈ موجود نہیں، ٹیکس ریٹرن ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں کہ 6 کروڑ کے گفٹ کیسے دیئے؟

جس پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر آشیانہ کیس کی بات کریں کہ اس میں کیا بے ضابطگی ہے۔

شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ آشیانہ اقبال کیس کے حوالے سے ہونے والی میٹنگز میں شریک افراد سے سامنا نہیں کروایا گیا۔

جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ان لوگوں کے بیان ریکارڈ ہوچکے ہیں۔

تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ جی تمام لوگوں کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں۔

شہباز شریف کی میڈیکل رپورٹس پیش، پمز میں علاج کی استدعا

دوران سماعت شہباز شریف کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں پیش کردی گئیں۔

شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میڈیکل رپورٹس کے مطابق ان کے موکل کو کینسر ہے۔

جس پر نیب کے تفتیشی افسر نے کہا کہ شہباز شریف کے لیے میڈیکل اسپیشلسٹس پر مشتمل بورڈ بنانے کا کہا گیا ہے، میڈیکل کے حوالے سے انہیں جیسا بھی ٹریٹمنٹ چاہیے وہ دینے کے لیے تیار ہیں۔

جس پر شہباز شریف نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے تمام میڈیکل ٹیسٹ اور چیک اپ اسلام آباد کے پمز اسپتال میں ہو رہا ہے، لہذا عدالت پمز میں علاج جاری رکھنے کا حکم دے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نےشہباز شریف کے مزید ریمانڈ سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعدازاں ان کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 9 دن کی توسیع کرتے ہوئے سماعت 6 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور عدالت آنے والے تمام راستے کنٹینر اور خاردار تار لگا کر بند کردیے گئے تھے۔

آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل اور شہباز شریف پر عائد الزامات

نیب آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم، صاف پانی کیس، اور اربوں روپے کے گھپلوں کی تحقیقات کر رہا ہے، جس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت دیگر نامزد ہیں۔

آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد پہلے ہی گرفتار کیے جاچکے ہیں۔

نیب ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف کو لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق ڈی جی فواد حسن فواد کے بیان کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کیس کی آخری پیشی پر شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو آمنے سامنے بٹھایا گیا۔ نیب ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اس موقع پر فواد حسن فواد نے کہا تھا کہ 'میاں صاحب آپ نے جیسے کہا میں ویسے کرتا رہا'۔

نیب کے مطابق شہباز شریف پر الزام ہے کہ انھوں نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب آشیانہ اسکیم کے لیے لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ غیر قانونی طور پر منسوخ کروا کے پیراگون کی پراکسی کمپنی 'کاسا' کو دلوا دیا۔

نیب کا الزام ہے کہ شہباز شریف نے پنجاب لینڈ ڈیولپمنٹ کمپنی (پی ایل ڈی سی) پر دباؤ ڈال کر آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا اور پھر یہی ٹھیکہ پی ایل ڈی سی کو واپس دلایا جس سے قومی خزانے کو 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔

نیب ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر کنسلٹنسی کانٹریکٹ ایم ایس انجینئر کسلٹنسی کو 19کروڑ 20 لاکھ روپے میں دیا جبکہ نیسپاک کا تخمینہ 3 کروڑ روپے تھا۔

مزید خبریں :