03 اگست ، 2012
اسلام آباد… سپریم کورٹ میں توہین عدالت قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت مکمل ہو گئی ہے اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو آج ساڑھے تین بجے سنایا جائے گا۔ آج چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے توہین عدالت قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھے، انہوں نے کہاکہ نئے قانون کا استعمال سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے کرنا ہوتا،اس قانون میں آئین کی کسی دفعہ کو تبدیل نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں، نئے قانون کے تحت ہر جوڈییشل پاور رکھنے والا اسے استعمال کرسکتا ہے، جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی صاحب آپ نے کہاتھا کہ ہر لفظ، کامہ اور فل سٹاپ کا مطلب ہوتا ہے، نئے قانون میں توہین کی تعریف سے متعلق تضحیک، اسکینڈلائز، توہین جیسے کئی الفاظ موجود نہیں ، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون میں درج بعض الفاظ متبادل ہیں، بعض الفاظ کا مفہوم پتہ چل رہا ہے، قانون کو آئین کے مطابق بنانے کیلئے عدالت ، مقننہ کو کہہ سکتی ہے،صدر، گورنر کے علاوہ کسی کو سرکاری حیثیت میں توہین عدالت سے استثنی نہیں، قانونی غلط فہمی کی بنیاد پر وزیراعظم کو گھر جانا پڑا،عدلیہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور انتظامیہ کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتوں کو کام نہیں کہ مک مکا کرکے چلیں،ذہن سے نکال دیں کہ عدالیہ، انتظامیہ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلے گی، آئین کے آرٹیکل 248 میں ایسا کچھ نہیں کہ کسی کو توہین عدالت سے استثنی ہے جبکہ نئے قانون میں کہا گیا ہیکہ عدالتی حکم کی نافرمانی پر توہین عدالت نہیں ہوگی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 248 میں توہین عدالت کو واضح نہیں کیا گیا، آئین کو تو اس طرح پڑھنا ہے کہ وہ قانون کے الفاظ سے مطابقت رکھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں،کیا نتائج کا علم ہے، آپ جاکر آئین پڑھیں۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل کی جانب سے دلائل مکمل ہو نے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا جو آج ساڑھے تین بجے سنایا جائے گا۔