14 دسمبر ، 2018
شراب نوشی کی نہ صرف اسلام بلکہ دیگر مذاہب میں بھی اجازت نہیں ۔گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے اسمبلی اجلاس کے دوران شراب نوشی کو تمام مذاہب میں حرام قرار دیا اوراس پر پابندی عائد کر نے کی قرداد پیش کرنے کی تجویز دی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کے ساتھ عیسائی، ہندو اور سکھ برادری سمیت بیشتر مذاہب میں شراب کے استعمال، تیاری اور فروخت کی ممانعت ہے۔ رمیش کمار نے کہا کہ شراب کی خرید و فروخت کے تمام لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں۔ انہوں نے اس تجویز پر ایوان میں رائے شماری کا مطالبہ بھی کیا ۔
لیکن ایک اقلیتی رکن اسمبلی کی شراب پر پابندی کے خلاف تحریک ارکان اسمبلی کی اکثریت نے مسترد کر دی ۔شاید اکثریتی ارکان یہ قرارداد پیش کرتے اور اقلیتی ارکان اس کے خلاف بولتے تو سمجھ آتا کہ چلو شراب نوشی ان کی برادری میں برا فعل نہیں ہو گا۔ لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہنے لگی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقلیتی ارکان کے مطابق اقلیت کے نام پر ملک بھر میں شراب خانے چلائے جا رہے ہیں جبکہ ان کے مالکان کی اکثریت کا تعلق اقلیتی برادری سے نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ طاقتور اشرافیہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے اقلیتی برادری کا نام استعمال کر تے ہیں۔ جس سے یہ غلط تاثر عام ہوتا ہے کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں شراب نوشی کی اجازت ہے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں شراب کے کاروبار پر پابندی عائد کی گئی لیکن جنرل ضیاءالحق کے دور میں حکومت نے اقلیت کے نام پر شراب کی خرید و فروخت کے لائسنس دینے فیصلہ کیا۔یہ سلسلہ آج تک ہر برسر اقتدار آنے والی حکومت نےجاری رکھا ہوا ہے۔
سکھ برادری کا بھی کہنا ہے کہ سکھ مذہب میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کے استعمال یا کاروبار کی ممانعت ہے۔ ماضی میں بھی اقلیتی ارکان اسمبلی ان کے نام پر شراب کے کاروبار کے خلاف آوازیں اٹھاتے رہے ہیں لیکن اس پر کسی حکومت نے کان نہیں دھرے۔ اقلیت کا ماننا ہے کہ دھرم کے چند بڑے ٹھیکیداروں نے اس نا پسندیدہ فعل پر ذاتی مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اور ان کی وجہ سے ایوان میں قرارداد پیش نہیں ہونے دی جاتی۔
اقلیتی برادری کے رہنما برسوں سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ شراب کے کاروبار میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کا نام استعمال کرنے کا سلسلہ فوری بند کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ شراب خانوں کے لائسنس اور کاروبار کو اقلیت سے جوڑنا درست نہیں جس سے ان کا مذہب بدنام ہوتا ہے۔ شراب خانے چلانے والوں کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کروا کر اقلیت کے نام پر شراب کی فروخت میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اقلیتی برادری کا یہ مطالبہ درست ہے کہ ان کے مذہب کی آڑ میں شراب کے کاروبار پر پابندی عائد کر کے اس تاثر کی نفی کی جانی چاہیے کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں شراب نوشی کی اجازت ہے جبکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔
عمران خان انتخابات سے پہلے اور وزیراعظم بننے کے بعد بھی بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کے اس بیان کی نا صرف تحریک انصاف بلکہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے بھی تعریف کی اور تمام تر سیاسی مخالفت کے باوجود پاکستان کو مدینہ کی طرز پر فلاحی اسلامی ریاست بنانے کے لیے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔
اگر دین اسلام سے قطع نظر طبی لحاظ سے دیکھا جائے تو شراب پینے کے جان لیوا نقصانات ہیں۔ جس سے ہر شخص واقف ہے۔ کینسر، پھپڑوں ، جگر اور گردے کی بیماریاں، یاداشت کم یا ختم ہونااور رعشے جیسی موذی بیماریوں سمیت لاتعداد مرض شراب نوشی سے جڑے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نوجوانوں کو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کا درس دیتے ہیں، اگر ہم محمد عربی کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو اللہ کے آخری نبی ﷺنے متعدد مواقع پر شراب پینے اور پلانے کی ممانعت فرمائی ہے۔
آنحضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے‘‘۔
ایک اور موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’اﷲ نے لعنت فرمائی ہے شراب کے نچوڑنے والے، اسے پینے والے، اسے بیچنے والے اور اسے خریدنے والے پر اور اس کی حد 80 کوڑے ہے‘‘۔
مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شوریٰ اگر شراب پر پابندی کے خلاف رائے شماری نہ ہونے دے تو پھر آپ پاکستان کو مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے والے بیان کو کھوکھلا سیاسی نعرہ ہی کہہ سکتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔