22 دسمبر ، 2018
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر نیازی کا یہ شعر پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو درپیش صورتحال کی حقیقی ترجمانی کر رہا ہے، مرکزی و صوبائی حکومتیں بنانے کے بعد اب پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی منصوبہ بندی جاری ہے۔
جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے پنجاب میں قومی و صوبائی نشستوں پر اکثریت حاصل کی جبکہ مسلم لیگ (ن) کم فرق سے دوسرے نمبر پر رہی، جس کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف نے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر صوبائی حکومت بنائی۔
ضمنی انتخابات کے بعد تازہ ترین پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیں تو قومی اسمبلی میں پنجاب کے ایم این ایز کی تعداد 141ہے، جن میں تحریک انصاف کے 66، مسلم لیگ (ن) کے 64، پیپلز پارٹی کے 6، مسلم لیگ (ق) کے 4 ممبران قومی اسمبلی جبکہ عوامی مسلم لیگ کے ایک ایم این اے شامل ہیں۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں 297 منتخب ارکان میں تحریک انصاف کے 143 منتخب ایم پی ایز ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) 134 ممبران صوبائی اسمبلی کے ساتھ دوسری بڑی جماعت ہے۔
اس منظر نامے میں تحریک انصاف کو 2 اہم ترین چیلنجز درپیش ہیں، جن کو حل کیے بغیر پی ٹی آئی کو مقامی انتخابات کروانا مہنگا پڑسکتا ہے۔ پہلا چیلنج یہ کہ مقامی انتخابات کے لیے کیسا قانون بنایا جائے؟ مقامی حکومتوں کو کتنے اختیارات دیئے جائیں؟ صوبائی اور مقامی اختیارات میں توازن کیسے برقرار رکھا جائے تاکہ اختیارات نچلی سطح منتقل نہ کرنے کا الزام بھی نہ لگے اور صوبائی حکومت کا رعب بھی قائم و دائم رہے؟ اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے کونسے نکات ہوں جو پنجاب میں پارٹی کے اثر و رسوخ میں اضافہ کریں کیونکہ خیبر پختونخوا میں مقامی اور ضلعی حکومتوں کو اختیارات دیئے گئے لیکن جن اضلاع میں تحریک انصاف کامیابی حاصل نہ کرسکی، وہاں اپوزیشن جماعتوں کے منتخب مقامی نمائندوں نے صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دیا۔
دوسرا چیلنج یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی موجودگی میں جماعتی انتخابات کروانے کا خطرہ مول لیا جائے یا پھر غیر جماعتی انتخابات کروا کر صوبے پر اپنی گرفت کو یقینی بنایا جائے۔ جماعتی بنیادوں پر انتخابات کی صورت میں تحریک انصاف کو ہر ضلع، تحصیل اور ٹاؤن سمیت ایک ایک یونین کونسل میں جیت کو یقینی بنانے کے لیے منصوبہ بندی اور محنت کرنا پڑے گی۔
جماعتی انتخابات کروانے میں خطرہ یہ ہے کہ کئی اضلاع میں مسلم لیگ (ن) اپنی مقامی حکمرانی قائم کرنے کی پوزیشن میں ہے اور آئندہ عام انتخابات میں صوبے میں بہتر نتائج کا مظاہرہ کرنے کے لیے مقامی انتخابات میں کلین سوئپ ہی تحریک انصاف کے پاس واحد آپشن ہے کیونکہ حکمران جماعت کی مقامی انتخابات میں شکست کو نیک شگون شمار نہیں کیا جاتا، اسی لیے یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ میئرز اور ضلع کونسل چیئرمین کے الیکشن عام انتخابات کی طرز پر ہوں گے اور انہیں عوام براہ راست منتخب کریں گے۔
اس تجویز کو 'سیکنڈ لائن آف ڈیفنس' سمجھا جا رہا ہے کہ اگر کسی ضلع میں تحریک انصاف مقامی الیکشن میں اکثریت حاصل نہ کرسکے تو وہاں میئر اور ضلع کونسل چیئرمین کے براہ راست الیکشن کی صورت میں جیت کا ایک اور موقع بھی موجود ہو۔ دوسری طرف غیر جماعتی انتخابات کروانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جیتنے والے تمام آزاد امیدوار تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ہر ہر ضلع اور تحصیل میں تحریک انصاف کو الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی، جو بھی جیتے گا وہ حکمران جماعت تحریک انصاف میں شامل ہو جائے گا۔
تحریک انصاف کے تھنک ٹینک اس حوالے سے اطمینان کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، اس کی چند وجوہات ہیں۔ پہلی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب میں مقامی انتخابات کروانے کی کوئی جلدی نہیں کیونکہ اس وقت تمام اختیارات نومنتخب حکومت، ایم این اے اور ایم پی ایز استعمال کر رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے تمام میئرز اور چیئرمین فنڈز کے معاملے میں بے بس ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے مقامی نمائندوں کو برائے نام اختیارات دیئے تھے تاکہ صوبائی حکومت کی حاکمیت قائم رہے، اس لیے مقامی نمائندے اپنے اختیارات کی بنیاد پر تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بڑا خطرہ نہیں ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان خصوصاً پنجاب میں روایت رہی ہے کہ مقامی انتخابات کے نتائج عموماً حکمران جماعت کے حق میں آتے رہے ہیں۔ 2015 کے مقامی الیکشن میں بھی صرف دو اضلاع میں حکمران جماعت کو شکست کاسامنا کرنا پڑا، اٹک میں میجر طاہر صادق گروپ نے کامیابی حاصل کی اور ایمان وسیم چیئر پرسن ضلع کونسل بن گئیں۔ پاکپتن میں مقامی دھڑے بندی کی وجہ سے آزاد امیدوار اسلم سکھیرا چیئرمین ضلع کونسل بنے۔ ان کے علاوہ پورے پنجاب میں اُس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی۔ماضی کے ان نتائج کی بنیاد پر تحریک انصاف کی قیادت اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتی ہے کیونکہ صوبائی اور مرکزی حکومت ان کی ہے۔
اگرچہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام پر تحفظات رکھتی ہے لیکن مقامی انتخابات کی اس بحث میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما بلدیاتی الیکشن کے حامی ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ مسلم لیگ (ن) سے ان کی دیرینہ سیاسی مخالفت ہے اور وہ کوئی بھی ایسا موقع گنوانا نہیں چاہتے جس میں میاں برادران کو سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑے۔
ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے جلد از جلد گجرات ضلع کونسل کا تاج واپس لینا ہے کیونکہ 2015 کے مقامی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے چوہدری عابد رضا کے بھائی چوہدری تنویر نے چوہدری شجاعت حسین کی ہمشیرہ سمیرا الہی کو 8 ووٹ سے شکست دے کر چیئرمین ضلع کونسل گجرات کا الیکشن جیت لیا تھا اور ضلع کونسل گجرات پر چوہدری خاندان کی 30 سالہ کامیابی کو اَپ سیٹ کر دیا تھا۔ بلدیاتی الیکشن میں اتحادی جماعتوں کی ماہرانہ رائے اور حمایت بھی تحریک انصاف کے قدم مضبوط کرے گی۔
اس وقت اہم معاملہ یہ ہے کہ کیا سیاسی ضرورتوں اور حکمرانی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف غیر جماعتی انتخابات کا آسان راستہ اختیار کرتی ہے یا پھر منصوبہ بندی کے ساتھ جماعتی بنیادوں پر مقامی انتخابات کا انعقاد کرواتی ہے کیونکہ جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی الیکشن کروا کر اکثریت حاصل کرنا تحریک انصاف کے لیے عام انتخابات سے بڑا چیلنج ہوگا۔ اگر بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف واضح کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو یہ فتح 2018 کے عام انتخابات کی جیت پر مہر تصدیق ثبت کر دے گی کہ واقعی پنجاب کی عوام تبدیلی کے ساتھ ہے وگرنہ عام تاثر یہ ہوگا کہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت وقتی اور جذباتی فضا کا نتیجہ تھی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔