28 دسمبر ، 2018
سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے سے ٹھیک ایک ماہ قبل یہ 11 ستمبر 1999 کی بات ہے، جب کراچی پریس کلب کی ایک کرکٹ ٹیم سابق وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں لاہور جِم خانہ کی ٹیم سے میچ کھیلنے لاہور پہنچی۔
اس دورے کے انتظامات حکومت نے کیے تھے۔کراچی کے صحافیوں کی ٹیم کی کپتانی مظہر عباس کر رہے تھے جبکہ ٹیم میں ٹیسٹ آف اسپنر صلاح الدین صلو بھی شامل تھے۔
سالہا سال سے دنیا بھر میں کرکٹ رپورٹنگ کرنے کے باوجود میرے لیے لاہور جِم خانہ کے باغ جناح میں جانے کا یہ پہلا موقع تھا، لیکن اس بات کی آرزو کئی سالوں سے تھی کہ اس گراؤنڈ میں جانے کا شرف حاصل ہو۔
لاہور جِم خانہ میں پاکستانی ٹیم 1950 کی دہائی میں ٹیسٹ میچ بھی کھیل چکی تھی لیکن اس گراؤنڈ کے حوالے سے میں نے بڑے بڑے کرکٹرز سے ماجد خان اور عمران خان کے بارے میں بہت سارے قصے کہانیاں سن رکھی تھیں۔
میچ ٹاس کے بغیر شروع ہوگیا۔ لاہور میں اُس دن سخت حبس اور گرمی تھی جس میں سانس لینا مشکل تھا۔کراچی پریس کلب نے پہلے بیٹنگ کی، جس کے بعد پُرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا،کھانا کھانے کے بعد کئی دوست اونگھنے لگے۔
اچانک سب کو اُس وقت جمع کیا گیا جب مختلف ایجنسیوں اور اسپیشل برانچ کے لوگوں نے پورے گراؤنڈ کو گھیرے میں لے لیا۔ اسی دوران ایک ڈی ایس پی صاحب نے پریس کلب کے کھلاڑیوں کو بریفنگ دی کہ وزیراعظم کے سب سے قریب آپ لوگ ہوں گے، اگر خدانخواستہ کوئی شخص گراؤنڈ میں گُھسنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم بعد میں آئیں گے، لیکن آپ لوگ کوشش کرکے اسے پکڑیں، یہ سنتے ہی سب خوف میں مبتلا ہوگئے۔
دوپہر دو بجے کے بعد جب کراچی کے صحافی اس گراؤنڈ کی تاریخ اور عمران خان کی اس سے وابستگی کے حوالے سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک لگژری گاڑیوں کی آمد شروع ہوگئی۔ اسی دوران کالے رنگ کی ایک مرسڈیز کار پروٹوکول کے ساتھ باغ جناح میں داخل ہوئی۔کار میں سے نواز شریف پیڈ پہنے ہوئے باہر آئے، ان کا تعارف کراچی پریس کلب کی ٹیم سے کرایا گیا اور پھر میچ کی دوسری اننگز شروع ہوگئی۔
نواز شریف رن لیتے ہوئے بھاگنے کے بجائے تیزی سے چہل قدمی کر رہے تھے، کوشش کے باوجود وہ آؤٹ ہونے کے لیے تیار نہیں تھے
دنیا بھر میں کرکٹ میچوں کی کوریج کرنے اور سپر اسٹار کھلاڑیوں کو ایکشن میں دیکھنے کے باوجود وزیراعظم نواز شریف کو کرکٹ ایکشن میں دیکھنے کا تجربہ منفرد رہا۔ نواز شریف، عمران خان کے کزن اور ماجد خان کے سمدھی جاوید زمان کے ساتھ اننگز اوپن کرنے آئے۔ جاوید زمان لاہور جِم خانہ میں کرکٹ کے کرتا دھرتا تھے، اس لیے انہوں نے جلد آؤٹ ہوتے ہی پیڈ اتارے اور وزیراعظم کی قربت حاصل کرنے کے لیے امپائرنگ کرنے کھڑے ہوگئے۔
میچ میں ایل بی ڈبلیو آؤٹ دینے کی کوئی روایت نظر نہیں آرہی تھی۔ نواز شریف چوں کہ فرسٹ کلاس کرکٹر تھے، اس لیے وہ منجھے ہوئے بیٹسمین کی طرح کھیل رہے تھے۔ صلاح الدین صلو نے انہیں آؤٹ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اپنی آف اسپن بولنگ سے وزیراعظم کی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔
نواز شریف رن لیتے ہوئے بھاگنے کے بجائے تیزی سے چہل قدمی کر رہے تھے،کوشش کے باوجود وہ آؤٹ ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آئی سی سی کے جنرل مینیجر میڈیا اور پی سی بی کے نئے ڈائریکٹر سمیع الحسن نے جب نئی گیند سے نواز شریف کو باؤنسر کرایا تو گیند ان کے کان کے قریب سے گزر گئی، جس پر منتظمین نے انہیں سختی سے ایسا کرنے سے منع کیا۔
ایک موقع پر باؤنڈری لائن سے جنگ کے انور اللہ حسینی نے وزیراعظم کو آؤٹ کرنے کی کوشش کی تو اسی کوشش میں گیند نواز شریف کی گردن پر جالگی، جس پر ایک بار پھر سیکیورٹی حرکت میں آگئی اور نواز شریف نے قریب کھڑے وکٹ کیپر امین یوسف کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آپ کو گیند روکنی چاہیے تھی، حالانکہ گیند کو اسپائیڈر مین ہی پکڑ سکتا تھا۔
پانی کے وقفے میں نواز شریف کا چہرہ گرمی سے لال ہوچکا تھا۔ اسی دوران وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری نے انہیں ایک پرچہ دیا، میں نے قریب جاکر گفتگو سننے کی کوشش کی۔ نواز شریف نے جب ملٹری سیکریٹری سے بات کی تو پتہ چلا کہ کراچی کے شہید ملت روڈ پر ایم کیو ایم کے کارکنوں اور پولیس والوں میں جھڑپ میں کئی لوگ زخمی ہوچکے تھے۔ اس واقعے کے باوجود وزیراعظم نے انہماک سے کھیلتے ہوئے نصف سنچری بنائی اور اپنی ٹیم کو میچ جتوا دیا۔ نوا ز شریف کی وکٹ شیلات خان کو ملی جو اگلے دن اخبارات میں شہ سرخیوں میں آگئے۔
میں نے عمران خان کے ساتھ بہت کرکٹ کھیلی ہے، وہ میرے دوست ہیں: نواز شریف
میچ کے اختتام پر گراؤنڈ کے وسط میں ایک محفل سجائی گئی، جس میں ہائی ٹی کا اہتمام تھا اور کھانے میں انواع و اقسام کے آئٹم تھے۔ اس محفل میں شیخ رشید، مشاہد حسین سید اور کئی بڑے مسلم لیگی رہنما موجود تھے۔ نواز شریف نے ایک گھنٹے تک سیاست دانوں اور صحافیوں کے ساتھ کھل کر گفتگو کی اور اس دوران عمران خان کی کرکٹ پر بھی بات ہوئی۔نواز شریف کہنے لگے کہ میں نے ان کے ساتھ بہت کرکٹ کھیلی ہے، وہ میرے دوست ہیں۔
نواز شریف کا قافلہ جیسے ہی گراؤنڈ سے روانہ ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں گاڑیاں وہاں سے پلک جھپکتے غائب ہوگئیں۔ میں چوں کہ کراچی پریس کلب کی اسپورٹس کمیٹی کا چیئرمین تھا، لہذا کراچی پہنچنے کے بعد کامریڈ صحافیوں نے ہمارے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی کیوں کہ کچھ دوستوں نے یہ افواہ پھیلا دی تھی کہ نواز شریف نے کراچی کے صحافیوں کو قیمتی تحائف اور قالینوں کا تحفہ دیا تھا۔ مرحوم عباس اطہر نے تو تحقیق کے بغیر اس بارے میں ہمارے بارے میں ایک کالم بھی لکھ دیا۔
وزیراعظم کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کا تجربہ نا قابل بیان ہے، لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ایک ماہ بعد نواز شریف اٹک جیل میں قید ہوں گے۔ پھر انہیں رہائی ملنے کے چند سال بعد تیسری بار وزیراعظم کا منصب ملے گا اور اس منصب سے انہیں اور کوئی نہیں لاہور جِم خانہ کے دوست اور کرکٹر عمران خان ہی آؤٹ کریں گے۔
کرکٹ کی دنیا میں حکمرانی کرنے والے عمران خان اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور نواز شریف لاہور جِم خانہ سے چند کلومیٹر دور کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں، لیکن کرکٹ کی رقابت اب سیاسی دشمنی میں بدل چکی ہے۔ لاہور جِم خانہ کی روایات میں اس سیاسی رقابت کو اب منفرد مقام ملا ہے اور کرکٹ سے شروع ہونے والی دوستی اب فاصلوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔