30 دسمبر ، 2018
کراچی: وفاق اور حکومت سندھ کے درمیان سیاسی ہلچل میں سندھ اسمبلی میں نمبر گیم اہمیت اختیار کر گیا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے آصف زرداری، بلاول بھٹو، فریال تالپور اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے جانے کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔
دونوں جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے پر تنقید اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔
سیاسی ہلچل کے بعد سندھ اسمبلی میں قائد ایوان کی تبدیلی کیلئے تحریک انصاف نے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں جسے پیپلز پارٹی رہنماؤں نے ’آپریشن سندھ‘ کا نام دیا ہے۔
اس ساری صورتحال میں سندھ اسمبلی میں نمبر گیم اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اس وقت صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 99 ہے۔
اگر سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی بات کی جائے تو پاکستان تحریک انصاف 30، ایم کیو ایم 20 اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی 14، تحریک لبیک پاکستان کی 3 اور متحدہ مجلس عمل کی ایک نشست ہے۔
وفاق میں اتحادی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے پاس اس وقت سندھ اسمبلی میں 64 اراکین موجود ہیں اور حکومت کی تبدیلی کے لیے انہیں مزید 21 نشستوں کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کئی ارکان اُن سے رابطے میں ہیں۔
وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ علی زیدی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لوگ خود ہمارے پاس آرہے ہیں اور زرداری کیلئے جلسے کرنے والے ہم سے کہہ رہے ہیں کہ سندھ حکومت سے جان چھڑائيں۔
اس صورتحال میں سندھ میں حکومت گرانا آسان نہیں ہے اور اس کام کیلئے پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کی سیاسی وفاداریاں بدلنی ہوں گی جو بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن ماضی کی بلوچستان اسمبلی کی طرح ممکن ہے جہاں اپنے ہی پارٹی و اتحادی ارکان نے ن لیگ کے ثناء اللہ زہری کو حکومت سے چلتا کر دیا تھا۔
مشکل ٹاسک کے باوجود بھی تحریک انصاف کافی سرگرم ہے اور وزیراعظم عمران خان کی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد گورنر سندھ عمران اسماعیل اور پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ نے بھی جی ڈی اے کے رکن سندھ اسمبلی علی گوہر مہر سے ملاقات کی جس میں سندھ کی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملک میں خاص طور پر صوبہ سندھ میں جاری ہلچل کے نتیجے کا سب کو انتظار ہے کیوں کہ صوبے میں 10 سال سے پی پی کی حکومت برسراقتدار ہے جس کو اقتدار سے چلتا کرنا مشکل ٹھہرے گا لیکن یہ وفاق کی جانب سے ایک مؤثر سیاسی دباؤ بھی ہوسکتا ہے جس کے باعث کئی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔