حمزہ شہباز کو 10 روز کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی


لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کو 10 روز کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔

واضح رہے کہ حمزہ شہباز نے گزشتہ روز بلیک لسٹ سے نام نکلوانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

حمزہ شہباز نے اپنی درخواست میں وزارت داخلہ، ایف آئی اے، ڈی جی امیگریشن اور نیب کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ طبی وجوہات کی بناء پر بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فرخ عرفان نے آج حمزہ شہباز کا نام بلیک لسٹ میں ڈالنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے حمزہ شہباز کے وکیل سے استفسار کیا کہ 'کیا وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں؟' 

جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 'حمزہ شہباز محب وطن شہری ہیں اور انہوں نے سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں بھی ملک نہیں چھوڑا'۔

حمزہ شہباز نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ 'گذشتہ برس دسمبر میں برطانیہ جاتے وقت ایئرپورٹ پر پتہ چلا کہ میرا نام بلیک لسٹ میں ہے'۔

جس پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ 'ایک شریف آدمی کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا ہے'۔

اس کے ساتھ ہی لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کو 10 روز کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔

دوسری جانب عدالت عالیہ نے وقافی حکومت سے بھی 15 روز میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس 11 دسمبر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے حمزہ شہباز کو لندن جانے سے روک دیا تھا۔

حمزہ شہباز کے مطابق جب وہ بورڈنگ کارڈ حاصل کرنے کے بعد امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے، کیونکہ ان کے خلاف نیب میں انکوائری چل رہی ہے۔

اس موقع پر حمزہ شہباز نے ایف آئی اے حکام کو بتایا کہ وہ نیب میں چلنے والی انکوائری میں مطلوب نہیں ہیں، تاہم اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

واضح رہے کہ نیب حمزہ شہباز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس کی تحقیقات کر رہا ہے، جس میں گرفتاری سے بچنے کے لیے انہوں نے حفاظتی ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔

علاوہ ازیں حمزہ شہباز اور ان کے بھائی سلمان شہباز کے خلاف غیر قانونی پل اور 56 کمپنیوں سے مبینہ تعلق کی تحقیقات بھی جاری ہیں، جس کی بناء پر نیب نے گذشتہ برس نومبر میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔

مزید خبریں :