بلاگ
Time 30 جنوری ، 2019

مہاتما گاندھی سے سرفراز احمد تک

— 

پاکستانی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کے خلاف اگرچہ اب سازشوں کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں، لیکن یہ تحریر اس تازہ ترین صورتحال سے قطعہ نظر، ان کے اس متعصبانہ فقرے سے متعلق ہے جو اس تمام تر صورتحال کی بنیاد بنا ہے۔

ان کے اس جرم، اعتراف جرم، اس پر کھل عام معافی اور پھران کے خلاف چار میچز کھیلنے پر پابندی کے تناظر میں، جنوبی افریقا کے نسل پرست ماضی اور غیر منقسم ہندوستان کے باسیوں کے درمیان گہرے تعلق کی تاریخ کسی حد تک اہم محسوس ہونے لگی ہے۔ پاکستان میں چند حلقے سرفراز احمد کے خلاف اس فیصلے پر اگرچہ ناراض ہیں، لیکن نسلی تعصب کے معاملے میں خاص طور پر جنوبی افریقا سے وابستہ تاریخی حساسیت کا عنصر ذہن میں رکھنا بہرحال ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئی سی سی نے اسی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی، معافی کے باوجود یہ پابندی عائد کی ہے۔

خود مہاتما گاندھی کو ایک بار نسل پرستی کی بنیاد پر ٹرین سے باہر پھینک دیا گیا۔ گاندھی کا قابل رشک سیاسی کیرئیر، درحقیقت اسی واقعے سے شروع ہوتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب کراچی کے زولو جیکل گارڈنز کا نام گاندھی گارڈن ہوا کرتا تھا۔ مجھے وہ دور یاد ہے جب ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیورز کی اکثریت اس مقام کے نئے نام سے واقف نہیں تھی۔ چند برسوں پہلے تک گاندھی گارڈن کا نام لینے سے تو کام چل جایا کرتا تھا لیکن شاید آج بھی، زولوجیکل گارڈنزکا نام پاکستانیوں کی اکثریت کے لئے اجنبی ہے۔

شہر کے اس خوبصورت مقام کی تعمیر وسط انیسویں صدی کے بعد شروع ہوئی۔ کہتے ہیں کہ یہ باغ چند برسوں تک شہر کراچی کی اشرافیہ کے لئے مخصوص تھا؛ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اسے عام شہریوں کے لئے کھول دیا گیا۔ پھر بھی اس باغ میں جنوبی افریقا سے تعلق رکھنے والے سفید فام باشندوں کے داخلے پر سخت پابندی تھی۔کہا جاتا ہے کہ باغ کے صدر دروازے پرانگریزی زبان میں یہ ہدایات صاف صاف درج تھیں۔

جنوبی افریقا میں نافذ نسلی امتیاز پر مبنی پالیسی، ہندوستان کی آزادی اور بعد ازاں نیلسن منڈیلا جیسے انقلابی رہنماؤں کی جدوجہد کے باوجود، جاری و ساری رہی۔

در اصل یہ وہ دور تھا جب جنوبی افریقا میں سفید فام حکمرانوں کی نسل پرست پالیسی اپنے عروج پر تھی۔ ملک کے حقیقی سیاہ فام باشندوں کے ساتھ ساتھ وہاں بڑی تعداد میں آباد جنوبی ایشیائی اور دنیا کے دیگر خطوں سے آئے ہوئے ہزاروں محنت کش بھی اس متعصبانہ ماحول میں مستقل عتاب کا شکار تھے۔

انیسویں صدی کے اواخرسے بیسویں صدای کے اوائل تک، یہاں محنت مزدوری کے لئے آنے والے زیادہ تر ہندوستانیوں کا تعلق بنگال اور جنوبی ہند کے مختلف علاقوں سے تھا۔ البتہ بیسیوں صدی کے وسط تک، غیر منقسم ہندوستان سے جنوبی افریقا آنے والے زیادہ تر افراد گجرات، ممبئی، بیہار، اتر پردیش اور پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں اکثریت ہندوؤں اور مسلمانوں کی تھی۔ ان باشندوں نے نسلی عصبیت کے دور میں نہ صرف جنوبی افریقا کی معیشت کو مستحکم کیا بلکہ افریقن نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم تلے، استحصال زدہ طبقے کے لئے جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا اور اہم سیاسی و انتظامی عہدوں پر فرائض انجام دیے۔

ان کی اکثریت مصالحہ جات کی تیاری اورترسیل سے متعلق تجارت سے وابستہ تھی جب کہ محنت مزدوری کرنے والے ہندوستانی مختلف افریقی ممالک میں جنگلات، کان کنی اور ریلویز کی تعمیر سمیت مختلف پروجیکٹس پر کام کرنے والی یورپی کمپنیوں میں ملازمت کرتے تھے۔ 1996 میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم "دی گھوسٹ اینڈ دی ڈارکنس" کے چند مناظر اس تاریخ کی یاد دلاتے ہیں۔ غیر منقسم ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ان محنت کش، پیشہ ور اور تاجر افراد کی سب سے بڑی تعداد شہر ڈربن میں آباد ہے۔

پاکستان میں کیری پیکرسیریز کی ایسی ویڈیوز پر پابندی تھی لہذا ہم یہ ویڈیوز کچھ اس طرح چھپ کے دیکھتے تھےگویا منشیات کی اسمگلنگ کا منصوبہ بنارہے ہوں۔

بیسویں صدی کی شروعات میں ہندوستان کےچند معزز گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد وہاں پیشہ ور تعلیم حاصل کرنے اورقابل احترام شعبوں سے وابستہ ہونے کے باجود، متعصب نظام کے ہاتھوں بارہا پریشانیوں میں مبتلا رہا کرتے تھے۔ خود مہاتما گاندھی کو ایک بار نسل پرستی کی بنیاد پر ٹرین سے باہر پھینک دیا گیا۔ گاندھی کا قابل رشک سیاسی کیرئیر، درحقیقت اسی واقعے سے شروع ہوتا ہے۔

جنوبی افریقا میں نافذ نسلی امتیاز پر مبنی پالیسی، ہندوستان کی آزادی اور بعد ازاں نیلسن منڈیلا جیسے انقلابی رہنماؤں کی جدوجہد کے باوجود، جاری و ساری رہی۔ ان متعصبانہ پالیسیوں کے سبب، دنیا بھر میں جنوبی افریقا کے ساتھ سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات اور روابط پر پابندیاں بھی قائم رہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی طرح، اس ملک کے کھلاڑی بھی بین الاقوامی مقابلوں میں خاطر خواہ جلوہ گر نہ ہوسکے۔

مجھے یاد ہے کہ بیری ریچرڈز، کلائیو رائس اور مائک پروکٹر جیسے بڑے جنوبی افریقی کرکٹرز کو ہم نے صرف وی سی آرمتعارف ہونے کے بعد کیری پیکر سیریز میں کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔ پاکستان میں کیری پیکرسیریز کی ایسی ویڈیوز پر پابندی تھی لہذا ہم یہ ویڈیوز کچھ اس طرح چھپ کے دیکھتے تھےگویا منشیات کی اسمگلنگ کا منصوبہ بنارہے ہوں۔

کلائیو رائس نے مہاتما گاندھی کے مذکورہ واقعے سمیت، جنوبی افریقا کی نسل پرست پالیسی اور متحدہ ہندوستان کے درمیان تاریخی تعلق کے بارے میں بہت سے قصے و کہانیاں سن رکھے تھے۔ شاید اسی لیے، انگلستان کے سابق کھلاڑی ڈیرک رینڈل کے بقول، دورعصبیت کے بعد پہلی بار ہندوستان پہنچ کر کلائیو رائس کا کہنا تھا کہ، 'اب اندازہ ہوا کہ چاند پر قدم رکھتے ہوئے نیل آرمسٹرانگ کے احساسات کیا تھے۔"

 سرفراز احمد کی جانب سے اتنی معصومیت اور کھلے دل سے، کھل عام معافی کے بعد یہ سزا معاف کی جاسکتی تھی اگر وہ اس جرم کا ارتکاب جنوبی افریقا کے بجائے کسی اور ملک میں کردیتے۔

کلائو رائس کے بارے میں کبھی کسی اور نے کہا تھا کہ نسلی امتیاز کے دورمیں ان کی شدید خواہش تھی کہ پابندی ہٹنے کے بعد وہ سب سے پہلے ہندوستان جا کر ٹیسٹ میچز کھیلیں۔ پھر سچ مچ ایک دورآتا ہے؛ اور 27 برسوں سے مقید نیلسن منڈیلا رہا ہوتے ہیں، ملک کی باگ ڈور سنھبالتے ہیں؛ جنوبی افریقا میں جمہوری دور کا آغاز اورنسلی عصبیت کے طویل دور کا خاتمہ ہوتا ہے، اس ملک پر لگی تمام تر پابندیاں ختم ہوجا تی ہیں اور پھر ایک روز، کلائیو رائس کو آخر کار جنوبی افریقا کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہندوستان جانے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ لیکن شاید اب تک کچھ دیر ہوچکی تھی۔

کلائیو رائس ہندوستان میں ٹیسٹ میچز نہیں کھیل سکے۔ لیکن تین ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلنے کے باوجود، وہ مطمئن نہ تھے۔ ایک موقع پر جب ایک ہندوستانی خاتون نے کلائیو رائس کی آڑھتی اتاری، تو وہ خلوص کے اس اظہار پر شاید یہ سوچ کر گم سم سے ہوگئے کہ ان کے ملک میں دورعصبیت کی طوالت کے سبب ان کی دیرینہ خواہش مکمل طور پر پوری نہ ہوسکی۔ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سابق بھارتی ٹیسٹ کرکٹرانشومن گائیکوارڈ نے جیو نیوز کو بتایا کہ انہیں بس اتنا یاد ہے کہ کلائیو رائس اس پورے دورے میں بہت جذباتی دکھائی دیتے رہے۔

یہ ساری باتیں جنوبی افریقا کی سابقہ نسل پرست پالیسیوں کے زیر اثر، کھلاڑیوں سمیت، سفید فام جنوبی افریقیوں میں ایک اجتماعی احساس ندامت اور نسلی عصبیت کے معاملے میں مستقل حساسیت کا سبب بنی رہی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یقینا یہ صورتحال بھی بہتر ہوجائے گی لیکن عصبیت سے متعلق کسی بھی قسم کے غیر ذمہ دارانہ اظہار کے معاملے میں آج بھی یہاں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

جدید دنیا میں اپنے وطن سے دور جانے والے ہر شخص کو کم از کم اتنا اندازہ ضرور ہونا چاہیے کہ کہیں اس کا کوئی لطیف سا مذاق کسی نئی سرزمین پر کسی فرد کے مختلف پس منظر کے سبب اس کی دل آزاری کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ 

سرفراز احمد کے متنازع فقرے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور پھر ان پر چار میچز کی پابندی کا معاملہ شاید اسی حساسیت کا پیش خیمہ ہے۔ اگرچہ اس پابندی کا فیصلہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے سنایا گیا ہے، لیکن کھل عام معافی مانگنے کے باوجود، اس پابندی پر پاکستانی حکام انتہائی مایوس اور ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ جب کہ آئی سی سی کا مؤقف ہے کہ معافی مانگے جانے کے سبب کم سے کم سزا سنائی گئی ہے۔

یہ صحیح ہے کہ اس انداز میں معافی مانگنے کے بعد بڑے سے بڑا قصور معاف کردیا جاتا ہے یا معاف کیا جاسکتاہے لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ جہاں معاملہ قانون کا ہو، وہاں پاسداری اور مساوات ناگزیر ضروریات بن جاتی ہیں۔

 پھر بھی کہوں گا کہ سرفراز احمد کی جانب سے اتنی معصومیت اور کھلے دل سے، کھل عام معافی کے بعد یہ سزا معاف کی جاسکتی تھی اگر وہ اس جرم کا ارتکاب جنوبی افریقا کے بجائے کسی اور ملک میں کردیتے۔ مانتا ہوں کہ سرفرازاحمد ایک کرکٹ کھلاڑی ہیں، اس لیے ان پر تاریخ پڑھنا یا دہرانا لازم نہیں، لیکن جدید دنیا میں اپنے وطن سے دور جانے والے ہر شخص کو کم از کم اتنا اندازہ ضرور ہونا چاہیے کہ کہیں اس کا کوئی لطیف سا مذاق کسی نئی سرزمین پر کسی فرد کے مختلف پس منظر کے سبب اس کی دل آزاری کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ رہی بات سرفراز احمد کے خلاف تازہ سازشوں کی، تو تقسیم ہند سے لے کرآج تک، تاریخ پر ایک معروضی نظر ڈالی جائے، تو واضح ہوجاتا ہے کہ اس طرح کے مواقعوں سے فائدہ اٹھانا روز اول سے ہمارا خاصا رہا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔