عمران خان کے پاس ’اسٹیٹس کو‘ کو توڑنے کا سنہری موقع

— 

مسلم لیگ ن نے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں نئے صوبوں کے قیام کا بل جمع کرا دیا ہے۔ اب تحریک انصاف اس معاملے کو کیسے حل کرتی ہے یہی اہم سوال ہے۔ کیا تحریک انصاف حکومت میں آنے کے بعد بھی نئے صوبوں کے معاملے پر اتنی ہی سنجیدہ ہے کیونکہ سو دن میں صوبہ بنانے والا وعدہ تو وفا نہ ہو سکا۔تحریک انصاف کی اتحادی مسلم لیگ ق بھی صوبہ بہاولپور کی بحالی کا مطالبہ زور و شور سے کر رہی ہے اور صرف ایک صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کو مسترد کر چکی ہے۔

مسلم لیگ ن کے آئینی بل میں کہا گیاہے کہ مئی 2012 میں پنجاب اسمبلی متفقہ طور پر الگ الگ قراردادوں میں صوبہ بہاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کی منظوری دے چکی ہے۔ اس لئے آئین میں ترمیم کے ذریعے قانون سازی کی جائے اور دو نئے صوبوں کے قیام کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔

اس وقت بہاولپور ڈویژن میں قومی اسمبلی کی 15 نشستیں ہیں ، بہاولنگر 4 ، رحیم یا ر خان 6 اور بہاولپور میں 5قومی اسمبلی نشستیں ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے آئینی بل کے مطابق صوبہ بہاولپور میں تین اضلاع شامل ہوں او رصوبہ بہاولپور کے قومی اسمبلی میں 15 ایم این اے براہ راست الیکشن سے منتخب ہوں جبکہ تین نشستیں خواتین کیلئے مخصوص ہوں ۔اس وقت بہاولپور ڈویژن میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 31 ہے۔ جن میں بہاولنگر کی 5 ، بہاولپور کی 10اور رحیم یار خان کی 13 نشستیں شامل ہیں۔ مجوزہ صوبہ بہاولپور کی صوبائی اسمبلی میں39 ممبران ہوں گے جن میں 31 براہ راست، سات خواتین اور ایک غیر مسلم ممبر ہوں گے ۔

بہاولپور — یہ پاکستان کی واحد مثال ہے جہاں ایک ترقی یافتہ اور مالی طور پر مستحکم صوبے کو محض ایک ڈویژن بنا دیا گیا

مجوزہ صوبہ جنوبی پنجاب میں ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 64ہے۔ ان دونوں ڈویژن میں قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد 31 ہے۔مسلم لیگ ن کے بل کے مطابق جنوبی پنجاب صوبہ میں ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن شامل ہوں ۔مسلم لیگ ن کی جانب سے پیش کردہ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے اسی طر ح جنوبی پنجاب صوبے کے 38 ایم این اے براہ راست منتخب ہوں جب کہ جنوبی پنجاب صوبے کی اسمبلی 80 ،ایم پی ایز پر مشتمل ہو جن میں 64 ڈائریکٹ ممبرز،14 خواتین اور دو غیرمسلم ممبران ہوں۔

صوبہ بہاولپور کی بحالی اور جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی تحریکیں مختلف اوقات میں زور پکڑتی رہی ہیں لیکن پاکستان میں نئے صوبوں کا قیام خاصا ناممکن مسئلہ ہے جسے قومی قیادت کو حل کرنا چاہیے۔ عوام کی آسانی اور انتظامی معاملات میں بہتری کیلئے ضروری ہے کہ بڑے بڑے صوبوں کی بجائے چھوٹے انتظامی یونٹ ہوں۔ صوبہ بہاولپور کا معاملہ تو یکسر مختلف ہے ۔ یہ پاکستان کی واحد مثال ہے جہاں ایک ترقی یافتہ اور مالی طور پر مستحکم صوبے کو محض ایک ڈویژن بنا دیا گیا ۔

صوبہ بہاولپور کیلئے کب کب معاہدے ہوئے؟

قیام پاکستان کے بعد1947، 1954،1951، میں تین مرتبہ صوبہ بہاولپور کے حوالے سے مختلف معاہدے ہوئے جن میں صوبائی اور مرکزی اختیارات کو اتفاق رائے سے تقسیم کیا گیا۔ریاست کے نواب سے معاہدے کے مطابق دفاع ، امور خارجہ اور مواصلات مرکزی حکومت کے ذمہ ہوں گے جبکہ باقی امور ریاست بہاولپور میں صوبائی طرز پر چلائے جائیں گے ۔ایک تحقیق کے مطابق 1955 تک صوبہ بہاولپور کا بجٹ باقی تمام صوبوں سے زیادہ تھا اور مشرقی پاکستان، پنجاب، سندھ اور سرحد ، ان کا بجٹ خسارے میں تھا اور بہاولپور سر پلس بجٹ والا واحد صوبہ تھا۔ پاکستان میں شمولیت کے وقت اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ تاج برطانیہ کی جانب سے ریاست کے نواب کو 17توپوں کی سلامی دی جاتی تھی اور قیام پاکستان کے بعد بہاولپور کو 21 توپوں کی سلامی کا سٹیٹس دیا گیا۔

ریاست بہاولپور کے صوبائی الیکشن

ریاست بہاولپور کے صوبائی الیکشن 1951 میں ہوئے جن میں 49 ممبران صوبائی اسمبلی کا حصہ بنے ، مخدوم سید حسن محمود اس صوبے کے وزیر اعلی منتخب ہوئے ۔ بعد ازاں ون یونٹ کے قیام پر اسے مغربی پاکستان میں ضم کر دیا گیا ۔جنرل یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت مارچ 1970 میں ون یونٹ کو ختم کر دیا لیکن اس میں بہاولپور کی صوبائی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے پنجاب کی ایک ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا۔ جس کے بعد بہاولپور میں ایک پر تشدد احتجاجی تحریک چلی جس میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں لیکن اس کی صوبائی حیثیت کو بحال نہیں کیا گیا۔

 جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں پر پہلے ہی ترقیاتی کام نہ کروانے کا الزام عائد ہوتاہے اورآج تک جنوبی پنجاب کے سیاستدان تمام ذمہ داری تخت لاہور پر ڈال کر اپنا دفاع کرتے آئے ہیں ۔

ماضی قریب میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے سیفران نے مئی 2011 میں بہاولپور کے دورے اور سرکاری ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد متفقہ طور پر کہا کہ صوبہ بہاولپور کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ یہ آئینی ترمیم کا مسئلہ نہیں بلکہ بحالی کے ایگزیکٹو آرڈر کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس مسئلے پر سینیٹ، قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی کے ممبران پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں ’’صوبہ بہاولپور جنوبی پنجاب ‘‘بنانے کی تجویزدی جس میں ملتان ، بہاولپور، ڈی جی خان ڈویژن ، بھکر اور میانوالی کے اضلاع شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کمیشن کی رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔گزشتہ سال جنوبی پنجاب کے اہم سیاستدانوں نے نئے صوبے کی شرط پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور عمران خان نے ایک تحریری معاہدے کے ذریعے نئے صوبے کا وعدہ کیا۔

اس تمام رام کہانی میں اس بات کا جائزہ بھی ضروری ہے کہ نئے صوبوں کے قیام سے سیاستدانوں کو ہی فائدہ ہو گا یا عوام تک بھی اس کے ثمرات جائیں گے ۔کیا جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں کو حکومت حکومت کھیلنے کے لئے ایک الگ صوبہ چاہیے؟ کیونکہ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں پر پہلے ہی ترقیاتی کام نہ کروانے کا الزام عائد ہوتاہے اورآج تک جنوبی پنجاب کے سیاستدان تمام ذمہ داری تخت لاہور پر ڈال کر اپنا دفاع کرتے آئے ہیں۔ نئے صوبوں کی سیاسی فضا میں سیاسی کارکنوں کا کتنا عمل دخل ہو گا یا پھر چند گھرانوں کے لوگ ہی اپنی اجارہ داری قائم رکھیں گے۔

جنوبی پنجاب کے تگڑے سیاستدان پہلے ہی اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ۔ اس صورت حال میں نئے صوبے بنانے کی حکمت عملی میں ایسے اقدامات کوبھی شامل کرنا چاہیے جن سے عوامی مسائل کا خاتمہ ہو اور ترقیاتی فنڈز چند بااثر لوگوں تک محدود نہ رہیں، اگر ایسے اقدامات نہ کئے گئے تو ان نئے صوبوں سے عوام کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ مخصوص سیاسی اشرافیہ ہی مزے اڑائے گی۔

تقسیم ہند کے بعد انڈیا میں 18 علاقوں کو نئے صوبے اور وفاقی اکائیاں بنایا گیا لیکن پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام پر توجہ نہ دی گئی ۔ اس’’ اسٹیٹس کو ‘‘کو توڑنے کیلئے عمران خان کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب کو صوبوں کا درجہ دیں یاپھر وہ بھی روایتی حکمران ثابت ہوں گے جو قراردادوں سے آگے نہیں بڑھیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔