28 فروری ، 2019
ایک تکلیف دہ خبر سامنے آئی کہ قصور میں غریب کے گھر کی بوسیدہ چھت گرنے سے ایک بچی اور اس کے والدین کی جان چلی گئی۔ محنت کش محمد رفیع اس کی بیوی روبینہ اور تین سالہ بیٹی ایمان گھرمیں موجود تھے کہ اچانک چھت گری اور تینوں بے موت مارے گئے۔ محلے والوں کا کہنا ہے کہ اس کے گھر کی چھت بوسیدہ تھی جس کی فوری مرمت کی ضرورت تھی ۔ لیکن اس غریب کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ چھت کی مرمت کروالیتا۔ رہی سہی کمی حالیہ دنوں ہونے والی بارشوں نے پوری کر دی اور اس مزدور کے گھر کی مٹی سے بنی چھت پر اتنا بوجھ پڑا کہ چھت اس پر آ گری اور غریب خاندان کے تینوں افراد اسی مٹی تلے دفن ہو گئے۔
سوچتا ہوں کہ یہ پاکستان اور اس جیسے غریب ملکوں میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کچھ سال پہلے خبر آئی کہ کھیوڑہ جاتے ہوئے ٹائی راڈ ٹوٹنے سے بچوں کی بس کھائی میں جاگری ۔ کھیوڑہ میں دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان دیکھنے کے لئے جانے والے بچوں میں سے 30 بچے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اسی قسم کے متعدد واقعات آئے دن رنما ہوتے رہتے ہیں ۔ کبھی اسکول وین میں گیس لیک ہونے سے آگ بھڑک اٹھتی ہے تو کبھی خبر ملی کہ کسی پرانی گاڑی یا گھر کے بجلی کے نظام میں خرابی کے باعث تاروں میں آگ لگی اور ہلاکتیں ہو گئیں۔
ملک کے کسی بھی علاقے میں ایسا کوئی واقعہ ہو تو حکومتی ذمہ داران اور محکہ کے سربراہان کی جانب سے فوری ایک گھسا پٹا بیان جاری کر دیا جاتا ہے ، جس سے مجھے بہت نفرت ہے اور وہ یہ کہ " وزیراعلی نے نوٹس لے کر رپورٹ طلب کر لی، وزیر نے نوٹس لیتے ہوئے سخت ایکشن لینے کے احکامات جاری کر دیے ۔ آئی جی نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے لیے اعلی سطح کی کمیٹی بنا دی وغیرہ وغیرہ۔ ایسے بیانات غریبوں کے دکھ کا ازالہ کرنے کے بجائے ان پر نمک ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اور پھر مرے پر سو درے کی مانند ان اعلیٰ ترین افراد کے نوٹس دھرے کے دھرے ہی رہ جاتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے کیے گئے اقدامات کا نتیجہ صفر سے زیادہ نہیں نکلتا۔ حکمران اور متعلقہ محکموں کے سربراہان نہایت اطمینان سے میڈیا میں بیان جاری کرکے عوام کو طفل تسلی دے کر خود خواب خرگوش کے مزے لینے کے لیے "نہایت انہماک سے مصروف" ہو جاتے ہیں۔ ان کے اس رویے کی وجہ بہت سادہ سی ہوتی ہے کہ ، " رات گئی بات گئی" یا یہ کہہ لیں کہ
" آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل"
اور جب پہاڑ ہی اوجھل ہو جاتا ہو تو اس طرح کی چھوڑی موٹی خبروں اور واقعات کی اس سے زیادہ کیا اہمیت ہو سکتی ہے کہ سربراہان مملکت کے طرف سے تاریخ نئی ڈال کر ایک برسوں سے دیا جانے والا "تازہ" بیان جاری کر دیا جائے۔
اس تمام معاملے میں غریب عوام ہی قصوروار ہو کہ وہ غریب کیوں ہیں اور ان کے پاس جب اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ گھر یا گاڑی کی مرمت کروا سکیں تو اس میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ لہٰذا وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت کی طرف سے بیان جاری کرنا ہی غریب عوام کی داد رسی سے بڑھ کر ہے۔ قصور تو عوام کا ہی ہے جس نے ان افراد کو منتخب کر کے اپنی نمائندگی کی ذمہ داری دی ۔ تو یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ
"جیسی کرنی ویسی بھرنی" کچھ کہتے ہیں کہ
"جیسا کرو گے ویسا بھرو گے"
ہمارے پیارے وطن میں یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے کہ ایک ساتھ کئی کئی واقعات و سانحات سننے کو ملتے ہیں اور زیادہ تر واقعات و حادثات میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ "ان میں غریب ہی مارا جاتا ہے‘‘
اسی لیے میں کہتا ہوں کہ
"برق گرتی ہے تو بیچارے غریبوں پر"
امیر ہو یا غیرب اللہ تعالی سب کو اپنی امان میں رکھے اور جان و مال کی حفاظت فرمائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاید ہی ہم نے کبھی سنا ہوکہ کسی امیر علاقے میں مکان کی چھت گری ہو یا بجلی کے تاروں میں آگ لگی ہو یا گیس لیکیج کا کوئی واقعہ رونما ہوا ہو۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی امیر کا بچہ سردی سے ٹھٹھر کر مرگیا ہو یا وہ شدید بیمار ہو اور پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا علاج نہیں ہونے سے موت واقع ہو گئی ہو۔
لیکن ملک میں بنیادی ضروریات زندگی اور سہولیات کی فراہمی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ تمام سہولیات اور آرام دہ زندگی پر امیروں کا حق ہے اور سب کچھ ان کے لئے بنایا جاتا ہے۔ گلیوں محلوں اور سڑکوں پر گٹر کا گندا پانی کھڑا بھی ہوتا ہے تو غریبوں علاقوں اور بستیوں میں ہوتا ہے۔ پانی کی بوند بوند کو ترسایا جاتا ہے اور پانی کی تلاش میں خوار کروایا جاتا ہے تو غریب کو۔ بجلی بند کی جاتی ہے تو وہ غریب علاقوں کی۔ تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے تو غریب کے بچے کواور ان کے لیے بنے تعلیمی اداروں میں وڈیرے کے جانور باندھے جاتے ہیں یا اس میں تعینات اساتذہ بڑے لوگوں کی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔
کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ امیر علاقے میں فراہمی و نکاسی آب کا چھوٹا سے بھی مسئلہ ہو تو آدھا گھنٹہ میں تمام حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے لیکن غریب کے علاقے میں کئی کئی دن تو چھوڑیے مہینوں گٹر کا گندا پانی کھڑا رہتا ہے جس کی گندگی سے مچھر مکھیاں اور مہلک بیماریاں ڈیرے ڈال لیتی ہیں اور پیچارے غریب اسی گزارہ کرنے پر مجبور رہتے ہیں اور گندے پانی پر ہی اپنا راستہ بنالیتے ہیں۔
کیا غربت کوئی جرم ہے جس کی غریب کو سزا دی جا رہی ہے۔ اگر میرا یہ خیال درست نہیں ہے تو پھر حکمرانوں کا غریب عوام سے کیوں ایسا رویہ ہوتا ہے کہ غریب جائے بھاڑ میں اور کوئی بھی حکومت فوری اقدامات کرنے کے بجائے صرف نوٹس لینے کے بیان پر کیوں ٹرخا دیتی ہے۔
صحافت کی دنیا میں ذاتی طور پر جس جملے سے میرا دل دکھتا ہے وہ یہ کہ ‘‘ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا وزیر اعلی نے نوٹس لے لیا، وزیر محترم نے نوٹس لے لیا ، آئی جی نے نوٹس لے لیا، وغیرہ وغیرہ" مجھے یہ یقین ہی نہیں بلکہ اچھی طرح معلوم ہے کہ بیانات دینے کا یہ سلسلہ صرف غریب عوام کے دکھاوے کے لئے ہوتا ہے تاکہ وقتی طور پر معاملہ ٹھنڈا ہو جائےکیوں کہ اس کے مستقل حل کی کسی کو کوئی فکرنہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ساہیوال سانحہ ہوا اور بہت شور شرابا ہو ، میڈیا میں خبریں آتی رہیں ۔ بہت اہم حکومتی وزرا ایوان نمائندگان اور ذمہ دار محکموں کے سربراہان نے نوٹس لئے ، لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔۔ نا کچھ ہونا تھا اور نا ہی کچھ ہوا۔
پھر تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ پاکپتن میں پولیس نے ڈاکو کہہ کر دولوگ ماردیے۔ پھر نوٹس لیے گئے اور ہمیشہ کی طرح معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ حکومت یہی چاہتی ہے کہ جیسے بھی ہو جلد از جلد میڈیا اور عوام کی توجہ اس مسئلے سے ہٹا دی جائےاور جان چھوٹے ، وزرا اور سربراہان اور ان کے خاندان کے آرام اور عیاشی پر کچھ خلل نا آئے اور ان کو کچھ کرنا نہ پڑے۔
حکومت اور دیگر ذمہ داران سن لین کہ اس طرح نوٹس لینے سے اب کچھ نہیں ہوگا اور جلد سے جلد جرم و سزا اور عدل کا نظام نافذ کرنا ہوگا تاکہ نوٹس لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور عوام کو مسائل کی دلدل سے باہر نکالا جائے۔
یہ بات تو رہی ایک طرف، حکومت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں امن و امان کو برقرار رکھنا، جرائم پر قابو پانا، معاشی اصلاحات کرکے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا اور غربت کا خاتمہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ ذمہ داری عوام پر بھی عائد ہوتی ہے اور وہ یہ کہ علاقے کے صاحب ثروت افراد آگے آئیں او ر اپنے علاقے کے غریبوں، یتمیوں ، بیواوں کی مدد کریں اور ان کے کام آئیں۔ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے گلی محلوں میں صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔ گٹروں اور گندے پانی گزرنے کے نالوں میں کچرا نہیں پھینکیں تاکہ اس میں رکاوٹ سے علاقے میں گندے پانی کے تالاب بن جائیں۔ پانی احتیاط سے استعمال کریں اور اس کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
قصور میں مکان کی کمزور چھت گرنے سے ایک ہی خاندان کے تین افراد جان سے گئے، اگر تھوڑا سا خیال رکھا گیا ہوتا کسی صاحب ثروت نے اس غریب گھرانے کی چھت پکی کروادی ہوتی تو شائد یہ افسوسناک واقعہ پیش نہ آتا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے ہر سال عمرہ پر جانے والے افراد تقریبا 130 ارب روپے سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ عمرہ ایک سعادت ہے اور یہ سب کو مبارک ہو لیکن یہ نفلی عبادت ہے اور اگر ہر سال عمرہ کرنے والے افراد یہ پیسے غریبوں پر خرچ کر دیں تو کتنے ہی غریبوں کو ناصرف مرنے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ یتیموں اور ناداروں کی مدد کی جا سکتی ہے۔
ہمارا مذہب بھی یہی کہتا ہے کہ عمرہ اور حج اس پر واجب ہوتا ہے جو استطاعت رکھتا ہو اور ایک یا دوبار حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ہم اس پیسے سے غریب و فقرا کی زیادہ سے زیادہ مدد کرکے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کریں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔